مسئلہ قادیانیت، دینی جماعتوں کے مطالبات

   
۱۴ جون ۱۹۷۴ء

۹ جون کو مدرسہ قاسم العلوم اندرون شیرانوالہ گیٹ لاہور میں علماء کرام، مشائخ عظام اور سیاسی راہنماؤں کے مشترکہ کنونشن میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ

  1. قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،
  2. کلیدی آسامیوں سے قادیانیوں کو الگ کیا جائے،
  3. ربوہ کو کھلا شہر قرار دے کر مسلمانوں کو وہاں بسنے کی اجازت دی جائے،
  4. واقعہ ربوہ کے سلسلہ میں مرزا ناصر احمد اور دیگر ذمہ دار افراد کو فی الفور گرفتار کیا جائے۔

کنونشن میں ان مطالبات کے لیے پر امن تحریک چلانے کی غرض سے ’’آل پارٹیز ختم نبوت ایکشن کمیٹی‘‘ کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کے کنوینر مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری دامت برکاتہم ہوں گے۔ کنونشن کے اختتام پر مولانا بنوری کی طرف سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبد الستار خان نیازی نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے مجلس عمل کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو ۱۴ جون کو ملک گیر ہڑتال کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ کنونشن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۱۹۵۳ء کے مقابلہ میں اس بار کنونشن میں سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ کنونشن نے ملک میں تخریبی کاروائیوں پر ناپسندیدگی ظاہر کی ہے اور ہر قیمت پر امن و امان قائم رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ حکومت سے بات چیت کے لیے مجلس عمل کی آمادگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرِدست ہمارا تصادم حکومت سے نہیں، ہماری حتی الوسع یہ کوشش ہوگی کہ حکومت کو یہ کہنے کا موقع نہ دیا جائے کہ مجلس اپنے مطالبات منوانے کے لیے تشدد پر اتر آئی ہے، یہ اس وقت سوچا جائے گا جب حکومت فریق بن کر ہمارے سامنے آئے گی۔ ہم حکومت کو انتباہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے مسلمانوں کے جائز مطالبات کو تسلیم نہ کیا تو ہم اسے بھی باغیانِ ختم نبوت کے زمرے میں شمار کریں گے اور اس کے کسی حکم کو ماننے کے پابند نہ ہوں گے۔

کل پاکستان مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت میں مختلف جماعتوں کے حسب ذیل نمائندے شریک ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت سے مولانا محمد یوسف بنوری (کنوینر) اور مولانا تاج محمود۔ جمعیۃ علماء اسلام سے مولانا مفتی محمود اور مولانا عبید اللہ انور۔ جمعیۃ علماء پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الستار خان نیازی اور قاضی فضل رسول۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد اور چودھری غلام جیلانی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ارباب سکندر خان خلیل اور امیرزادہ خان۔ جمہوری پارٹی کے نوابزادہ نصر اللہ خان اور رانا ظفر اللہ خان۔ قومی اسمبلی آزاد گروپ کے ظفر احمد انصاری۔ قادیانی محاسبہ کمیٹی کے آغا شورش کشمیری اور احسان الٰہی ظہیر۔ حزب الاحناف کے سید محمود احمد رضوی اور صاحبزادہ محمود شاہ گجراتی۔ تنظیم اہل السنۃ والجماعۃ کے مولانا نور الحسن شاہ بخاری اور علامہ عبد الستار تونسوی۔ مرکزی جماعت اہل سنت کے مولانا غلام علی اوکاڑوی اور مولانا سید حسین الدین۔ جمعیۃ اشاعت التوحید والسنۃ کے مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور مولانا غلام اللہ خان۔ تبلیغی جماعت کے مولانا مفتی زین العابدین۔ مجلس احرار اسلام کے مولانا سید ابوذر بخاری اور ثناء اللہ بھٹہ۔ جمعیۃ اہل حدیث کے حافظ عبد القادر روپڑی اور مولانا محمد صدیق۔ جمعیۃ اہل حدیث کے دوسرے گروپ سے میاں فضل حق اور شیخ محمد اشرف۔ شیعہ جمعیۃ علماء سے مولانا محمد اسماعیل گوجروی۔ ادارہ تحفظ حقوق شیعہ کے سید مظفر علی شاہ۔ مسلم لیگ کی طرف سے بعد میں نام دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جمعیۃ طلباء اسلام، اسلامی جمعیۃ طلباء، انجمن طلباء اسلام اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نمائندے بھی مجلس عمل میں لیے جائیں گے۔

قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمود نے ایک بیان میں جمعیۃ کی تمام شاخوں کو ہدایت کی ہے کہ مجلس عمل کے احکامات کی پوری تعمیل کی جائے اور جمعیۃ کے تمام کارکن ۱۴ جون کو ملک گیر ہڑتال کو مکمل طور پر کامیاب بنانے کے لیے محنت، جانفشانی اور جوش و خروش کے ساتھ کام کریں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ مجلس عمل کی پر امن اور آئینی جدوجہد کامیاب ہوگی اور بہت جلد حکومت کو اسلامیانِ پاکستان کے جائز مطالبات تسلیم کرنا پڑیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter