جہاد کے بارے میں سورۃ الانفال کی آیت ۶۵ و ۶۶ میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو لڑائی پر ابھاریں اور اس کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر دس کافروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ساتھ شامل ہوگا تو دس کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو غلبہ نصیب ہوگا۔ یہ ابتدائی حکم تھا جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی کہ دو کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو غلبہ ملے گا اگر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم اور حکمت شامل ہوگی۔
یہ دونوں حکم ایک ہی جگہ یکے بعد دیگرے مذکور ہیں جس سے فقہاء یہ مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں کا لشکر اپنے سے دوگنا زیادہ کافروں کے مقابلہ میں ہے تو اسے میدان جنگ سے تعداد کی کمی کی بنیاد پر پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں ہے، ہاں اس سے زیادہ تعداد اور تناسب ہو تو پھر اس کی اجازت ہے کہ میدان سے ہٹ جائیں۔ اس سے ہمارے بعض اہل علم اور دانشور دوستوں کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ یہ ایک اور دو کا تناسب جہاد کی فرضیت کے لیے شرط کا درجہ رکھتا ہے اس لیے اگر کسی جگہ کافروں کی طاقت اور تعداد مسلمانوں کی طاقت و تعداد کی دوگنا سے زیادہ ہے تو وہاں مسلمانوں پر جہاد سرے سے فرض ہی نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ اس صورت میں کافروں کے مقابلہ میں صف آراء ہوں گے تو قرآن کریم کے حکم کی خلاف ورزی کریں گے اور ان کا یہ اقدام شرعی تقاضوں کے منافی ہوگا۔ اسی پس منظر میں مختلف ممالک میں مسلمانوں کی ان جہادی گروپوں کی عسکری کاروائیوں کو بھی ہمارے ان دانشوروں کی طرف سے ناروا یا کم از کم خلاف حکمت و مصلحت قرار دیا جا رہا ہے جو اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتوں کے خلاف عسکری جدوجہد میں مصروف ہیں اور بعض جگہ تو ان کا تناسب سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ جہادی تحریکیں محض جذبات کے تحت کام کر رہی ہیں اور حکمت و دانش بلکہ شرعی اصولوں اور احکام کی رو سے ان کی اس جذباتی جدوجہد کی حمایت کرنا ضروری نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بات محض مغالطہ کی حیثیت رکھتی ہے اور عام مسلمانوں کو جہادی تحریکات کے بارے میں بلاوجہ تشویش اور تذبذب میں ڈالنے کے مترادف ہے اس لیے کہ قرآن کریم نے کافروں کے مقابلہ میں قتال یعنی لڑائی کے لیے کم از کم ایک اور دو کا جو تناسب ان آیات میں بیان کیا ہے وہ جہاد کی فرضیت یا آغاز کے لیے شرط کے طور پر نہیں بلکہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹنے کے لیے جواز کے درجہ میں ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں کی قوت کا تناسب اس سے کم ہو تو وہ جہاد شروع نہیں کر سکتے بلکہ یہ ہے کہ جہاں قوت کا تناسب ایک اور دو سے کم ہو اور مسلمان تعداد کی کمی کی وجہ سے پیچھے ہٹنا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے اور اگر اس صورت میں وہ میدان سے ہٹ آئیں گے تو وہ ’’فرار من الزحف‘‘ یعنی میدان جنگ سے بھاگنے کے مجرم قرار نہیں پائیں گے۔ یہاں بھی بات صرف اجازت تک ہے کہ ہٹنا چاہیں تو ہٹ سکتے ہیں، یہ حکم نہیں ہے کہ اس صورت میں ان پر میدان جنگ چھوڑ دینا شرعاً ضروری ہو جائے گا۔ چنانچہ انہی آیات کے تحت حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ ’’موضح القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’دورِ اول کے مسلمان یقین میں کامل تھے ان پر حکم ہوا کہ آپ سے دس برابر کافروں پر جہاد کریں، پچھلے مسلمان ایک قدم کم تھے تب یہی حکم ہوا کہ دو برابر جہاد کریں، یہی حکم اب بھی باقی ہے لیکن اگر دو سے زیادہ پر حملہ کریں تو بڑا اجر ہے۔ حضرت محمدؐ کے وقت ایک ہزار مسلمان اسی ہزار سے لڑے ہیں۔ ‘‘
حضرت شاہ صاحبؒ فرما رہے ہیں کہ اپنے سے دو گنا سے زیادہ کافروں پر جہاد میں حملہ کرنا منع نہیں بلکہ زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے اور اس کی دلیل کے طور پر وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے جس واقعہ کا ذکر فرما رہے ہیں اس میں تناسب ایک اور اسی کا بنتا ہے کہ صرف ایک ہزار مسلمانوں نے اسی ہزار کافروں کا مقابلہ کیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کریم کا بیان کردہ ایک اور دو کا تناسب جہاد کی فرضیت اور آغاز کے لیے نہیں بلکہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹنے کے لیے جواز کی شرط کے طور پر ہے اور اس حکم کے حوالہ سے جہادی تحریکات پر حرف گیری کرنا قرآن کریم کے منشا کے خلاف ہے۔
اس بات پر بھی غور کر لیا جائے کہ ان آیات کے بارے میں مفسرین کرام عام طور پر یہ لکھتے ہیں کہ ان کا نزول غزوۂ بدر کے موقع پر ہوا۔ ایک اور دس کے تناسب میں جنگ جاری رکھنے کا حکم غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے اور اس میں ایک اور دو کے درجہ تک تخفیف غزوۂ بدر کے بعد ہوئی ہے۔ جبکہ اس کے بعد خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو غزوات ہوئے ان میں اکثر جنگوں میں مسلمانوں اور کافروں کا تناسب ایک اور دو کا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود نہ صرف جنگ ہوئی بلکہ جناب رسول اللہؐ نے اس کی قیادت بھی فرمائی۔ غزوۂ احد میں جناب نبی اکرمؐ کے لشکر کی تعداد سات سو تھی اور مقابلہ میں تین ہزار کفار تھے، یہاں کفار کا تناسب چار گنا سے بھی زیادہ بنتا ہے لیکن اس کے باوجود جناب رسالت مآب نے میدان جنگ میں مقابلہ کیا حتیٰ کہ کفار کے میدان چھوڑ کر چلے جانے کے بعد بھی حمراء الاسد تک ان کا تعاقب کیا۔ غزوۂ خندق میں چوبیس ہزار کے لگ بھگ کفار کا جم غفیر مدینہ منورہ پر چڑھ دوڑا جس کا مقابلہ آنحضرتؐ نے صرف تین ہزار کی نفری کے ساتھ کیا، یہاں مسلمانوں اور کافروں کا تناسب ایک اور آٹھ کا بنتا ہے۔
اگر سورۃ الانفال کی مذکورہ آیات کا مطلب یہی تھا کہ اپنے سے دو گنا سے زائد کافروں کے مقابلہ میں جہاد کرنا جائز نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سے آٹھ گنا زیادہ قوت کے مقابلہ میں صف آراء ہونے کی بجائے ہمارے ان دانشور دوستوں کی رائے کے مطابق مذاکرات، صبر کے ساتھ حالات کو برداشت کرنے اور قوت کا توازن درست ہونے تک تیاری اور انتظار کرنے کی پالیسی اختیار فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا اور جناب رسالت مآبؐ نے آٹھ گنا زیادہ قوت کے مقابلہ میں نہ صرف ہتھیار اٹھائے بلکہ انہیں میدان سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔ خیبر کے غزوہ میں حضورؐ کا لشکر سولہ سو افراد پر مشتمل تھا جس کی قیادت کرتے ہوئے آپؐ نے خیبر پر چڑھائی کی اور ان کا مقابلہ بیس ہزار یہودیوں سے ہوا۔ اور یہ خندق کی طرح دفاعی جنگ نہیں تھی بلکہ اقدامی جہاد تھا کہ جناب نبی اکرمؐ نے خیبر پر حملہ کیا اور اپنے سے کم از کم بارہ گنا زیادہ قوت کو شکست دے کر خیبر پر قبضہ کر لیا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء راشدین اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی یہ صورت حال قائم رہی۔ قادسیہ کی جنگ میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار تھی اور مقابلہ ایک لاکھ بیس ہزار ایرانیوں سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ یرموک کی جنگ میں علامہ ابن خلدونؒ کے مطابق بتیس ہزار مسلمان چار لاکھ رومیوں کے مقابلہ میں صف آراء ہوئے اور رومیوں کو کم و بیش ایک لاکھ لاشیں میدان میں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اسپین کے معروف معرکہ میں طارق بن زیادؒ کی فوج کی تعداد صرف بارہ ہزار تھی اور مقابلہ میں ایک لاکھ عیسائیوں کا لشکر تھا اور یہاں بھی دفاع مقصود نہیں تھا بلکہ طارق بن زیادؒ نے سمندر پار کر کے خود اسپین پر چڑھائی کی تھی اور آٹھ گنا زیادہ قوت کو شکست دے کر اسپین پر قبضہ کر لیا تھا۔ پانچویں صدی ہجری میں قیصر ارمانوس دیوجانس نے تین لاکھ کا لشکر لے کر سلطان ارسلان سلجوقی پر چڑھائی کر دی۔ سلطان کے پاس صرف پندرہ ہزار کی نفری تھی، سلطان کو پہلے پریشانی ہوئی مگر اس وقت کے ایک بڑے عالم امام ابونصر محمد بن عبد المالکؒ نے سلطان کو حوصلہ دیا اور کہا کہ تعداد کی قلت کی وجہ سے میدان سے ہٹنا درست نہیں ہے ہمیں مقابلہ کرنا چاہیے، چنانچہ سلطان نے میدان میں مقابلہ کیا اور فتح پائی۔
یہ چند واقعات بطور نمونہ ذکر کیے گئے ہیں ورنہ تاریخ اسلام اور اسلامی غزوات کا تسلسل کے ساتھ مطالعہ کر کے ایسے واقعات معلوم کیے جائیں تو ان کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ جائے گی جہاں مسلمانوں کا مقابلہ دو گنا سے زیادہ نہیں بلکہ پانچ گنا اور دس گنا سے بھی زیادہ فوجوں سے ہوا لیکن پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی کسی عالم یا دانشور نے قرآن کریم کی ان آیات کا حوالہ دے کر مسلمانوں سے یہ نہیں کہا کہ تمہارے مقابلہ میں کافروں کی تعداد قرآن کریم کے بیان کردہ تناسب سے زیادہ ہے اس لیے تم پر جہاد فرض نہیں ہے، پانچ گنا بلکہ دس گنا تعداد اور قوت کے مقابلہ میں صف آراء ہو کر تم جذباتیت کا مظاہرہ کر رہے ہو اور تمہارا یہ عمل حکمت و دانش کے خلاف ہے۔ اللہ جانے ہمارے دور کے ان اہل دانش کو قرآن کریم کی اس منشا کا براہ راست کہاں سے علم ہوگیا ہے؟ ملتِ اسلامیہ کی چودہ سو سالہ تاریخ اور امت کا اب تک چلا آنے والا اجتماعی تعامل تو اس کی تائید نہیں کرتا۔