حدود آرڈیننس پر اعتراضات اور ان کا پس منظر

   
یکم اکتوبر ۲۰۰۶ء

گزشتہ دنوں مختلف محافل میں حدود آرڈیننس اور ان کے حوالہ سے اٹھائے جانے والے سوالات پر کچھ عرض کرنے کا موقع ملا۔ ان گزارشات کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

”حدود“ کا لفظ قرآن کریم میں طلاق، وراثت اور دیگر بہت سے حوالوں سے استعمال ہوا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ قرآنی ضابطے اور قوانین حدود اللہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جو بھی ان حدود کو پھلانگے گا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت سزا کا مستحق ہو گا، لیکن شریعت کی اصطلاح میں ”حدود“ معاشرتی جرائم کی ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو قرآن و سنت میں طے شدہ ہیں اور جن میں رد و بدل کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔

انسانی معاشرہ میں جرائم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور چھوٹے موٹے جرائم ملا کر سینکڑوں کی تعداد تک پہنچ جاتے ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان میں دفعات کی تعداد پانچ سو سے زائد ہے، جو ان جرائم کے تنوع اور وسعت کی نشاندہی کرتی ہے۔ مگر ان سینکڑوں جرائم میں سے صرف پانچ چھ جرائم ایسے ہیں جن کی سزا شریعت نے خود طے کی ہے اور باقی تمام جرائم کی سزاؤں کا تعین اسلامی حکومت، اس کی مقننہ اور عدلیہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ مثلاً

  1. چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا،
  2. زنا کی سزا ایک صورت میں سنگسار کرنا اور ایک صورت میں سو کوڑے مارنا،
  3. قذف یعنی کسی پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر اسی کوڑے مارنا،
  4. شراب نوشی کی سزا اسی کوڑے،
  5. ارتداد کی سزا قتل،
  6. ڈکیتی اور بغاوت کی سزا ہاتھ پاؤں الٹے کاٹنے یا قتل کرنے یا جلا وطنی کی صورت میں طے کی گئی ہے، وغیر ذلک۔

یہ طے شدہ سزائیں ”حدود شرعیہ“ کہلاتی ہیں اور ان میں اور دوسری سزاؤں میں فرق یہ ہے کہ حدود شرعیہ سے متعلقہ جرائم کی صورت میں عدالت میں جرم ثابت ہو جانے پر اس سزا کی معافی یا اس میں رد و بدل کا کسی کو اختیار نہیں ہے، جبکہ باقی تعزیری جرائم میں حکومت، عدالت یا مقننہ کے صوابدیدی اختیارات باقی رہتے ہیں۔

جرائم کی یہ سزائیں جو حدود شرعیہ کہلاتی ہیں، قرآن کریم نے اصلاً بائبل سے لی ہیں اور تورات کے احکام کے تسلسل کو بعض ترمیمات و اصلاحات کے ساتھ باقی رکھا ہے۔ اس لیے یہ اگر سخت ہیں یا آج کی دنیا کی نظر میں ان میں تشدد پایا جاتا ہے تو اس اعتراض کا اصل ہدف تورات اور بائبل قرار پاتی ہیں۔ کیونکہ (۱) رجم کرنا (۲) کوڑے مارنا (۳) جسم کے اعضاء کاٹنا اور (۴) مجرم کو کھلے بندوں لوگوں کے سامنے سزا دینا اصل میں تورات کے قوانین ہیں، جو تمام تر تحریفات کے باوجود آج بھی تورات، انجیل، زبور اور ان سے متعلقہ کتابوں کے مجموعہ بائبل میں موجود ہیں اور اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ قرآن و سنت نے یہ قوانین نئے احکام کی صورت میں نہیں دیے، بلکہ تورات کے احکام و قوانین کے تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے نافذ کیے ہیں۔

چنانچہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ایک یہودی جوڑا زنا کے جرم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ وہ دونوں اپنی اپنی جگہ شادی شدہ تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے تورات منگوائی اور اس کے حکم کے مطابق ان دونوں کو سنگسار کرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے اس نوع کے جو مقدمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے، ان میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قانون پر عمل کیا۔ (۱) شادی شدہ کو زنا کی صورت میں سنگسار کیا (۲) غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگوائے اور (۳) زنا بالجبر کے ایک کیس میں مجبور کی جانے والی خاتون کو بری کر کے جبر کرنے والے مرد کوسنگسار کرنے کی سزا دی۔

ہمارے ہاں عام طور پر ایک بات کہہ دی جاتی ہے کہ قرآن کریم پہلی تمام کتابوں اور تورات کا ناسخ ہے اور اس نے ان کتابوں کو کلیۃً منسوخ کر دیا ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے، کیونکہ خود قرآن کریم نے پہلی کتابوں کے حوالہ سے اپنا تعارف مختلف مقامات پر ”مصدق“ کے طور پر کرایا ہے اور ایک جگہ خود کو ان کتابوں کا ”مہیمن“ بھی کہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور ان کی تعلیمات کا محافظ ہے۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ قرآن کریم تورات اور دیگر سابقہ کتابوں کے بعض احکامات کا ناسخ ہے، ان میں ہونے والی تحریفات و ترمیمات کی نشاندہی کرتے ہوئے سابقہ آسمانی تعلیمات و احکام کو آخری اور مکمل شکل میں پیش کرنے والا ہے اور اب سابقہ آسمانی کتابوں کی انہی تعلیمات و احکام کو درست تسلیم کیا جائے گا جو قرآن کریم کی تصدیق سے بہرہ ور ہیں، باقی باتیں یا تو تحریف شدہ ہیں یا منسوخ ہو گئی ہیں۔

اس پس منظر میں ہمارا یہ شرعی اصول بھی واضح طور پر موجود ہے کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات یا پہلی کسی اور شریعت کا حکم نقل کیا ہے اور اس پر نکیر نہیں کی تو وہ ہماری شریعت کا بھی اسی طرح قانون بن جاتا ہے جیسے پہلی شریعت میں تھا۔ اس لیے یہ گزارش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حدود شرعیہ سے متعلق قوانین اصل میں تورات کے قوانین ہیں، جو آج کی بائبل میں بھی جوں کے توں موجود ہیں اور قرآن کریم نے کچھ ترمیمات اور اصلاحات کے ساتھ انہی قوانین کے تسلسل کو قائم رکھا ہے۔

حدود شرعیہ پر مختلف حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو ان کے اصل پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے کہ اسی صورت میں ان اعتراضات کی اصل وجوہ اور اہداف کو سمجھا جا سکتا ہے۔

حدود شرعیہ پر کیا جانے والا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ انتہائی سخت سزائیں ہیں اور ان میں تشدد اور اذیت کا پہلو پایا جاتا ہے، جو آج کی دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس اعتراض کی بنیاد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی ایک مستقل دفعہ پر ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ”کسی انسان کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھا جائے گا جس میں جسمانی تشدد، ذہنی اذیت اور تذلیل و توہین کا عنصر پایا جاتا ہو اور کسی شخص کو ایسی سزا بھی نہیں دی جائے گی۔“ اس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ کسی بھی جرم میں دی جانے والی سزا کو جسمانی تشدد، ذہنی اذیت اور توہین و تذلیل سے پاک ہونا چاہیے اور چونکہ حدود شرعیہ والی سزاؤں میں یہ تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں، اس لیے وہ انسانی حقوق کے منافی ہیں اور اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے انسانی حقوق کے اس چارٹر پر دستخط کر کے اس کی پابندی کا عہد کر رکھا ہے، اس لیے اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں سے کسی کو اپنے ہاں اس قسم کی کوئی سزا نافذ نہیں کرنی چاہیے۔

اس اعتراض کا یہ پہلو درست ہے کہ سنگسار کرنے، کوڑے مارنے، کھلے بندوں سزا دینے اور قصاص میں ان کے جسم کے اعضا کاٹنے کی سزاؤں میں وہ تینوں باتیں موجود ہیں جن کی اقوام متحدہ کے منشور میں نفی کی گئی ہے اور یہ پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو اس معاہدے کی پابندی کرنی چاہیے، لیکن یہاں دو باتیں بطور خاص قابلِ توجہ ہیں:

  1. ایک یہ کہ ان سزاؤں میں تشدد اور تذلیل کے عنصر کی موجود گی پر اعتراض کا ہدف صرف قرآن کریم نہیں، بلکہ بائبل بھی ہے۔ اس لیے اس مسئلہ پر مسیحیت کے مذہبی راہ نماؤں کو غیرت دلانے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں اپنے مذہبی فریضہ کا احساس کریں اور لامذہبیت کا ساتھ دینے کی بجائے بائبل کے احکام کا دفاع کریں۔
  2. دوسری بات یہ کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ سخت اور سنگین سزاؤں کے بغیر انسانی معاشرے میں جرائم کا خاتمہ ممکن ہی نہیں۔ ماضی کے تجربات بھی اس پر گواہ ہیں اور حال کی صورت حال بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو کنٹرول کرنے کے لیے سنگین اور سخت ترین سزاؤں کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

اس مسئلہ پر عالمی سطح پر مباحثہ اور مکالمہ کی ضرورت ہے کہ جرائم کا خاتمہ تشدد، اذیت اور تذلیل سے خالی سزاؤں کے ذریعہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے تو تشدد اور تذلیل کا واویلا کر کے آسمانی تعلیمات میں بیان کی جانے والی سزاؤں کی مخالفت کا کیا جواز ہے؟

پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی مسلم دانش وروں کی توجہ کی مستحق ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی صرف ایک دفعہ نہیں، بلکہ متعدد دیگر دفعات بھی قرآن و سنت کے صریح احکام کی نفی کرتی ہیں اور انہیں انسانی حقوق کے منافی قرار دیتی ہیں۔ ان سب دفعات کو سامنے رکھ کر اقوام متحدہ کے پالیسی سازوں اور عالمی رائے عامہ پر دلیل اور حجت کے ساتھ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں پر ان کے عقائد کے منافی اور قرآن و سخت سے صریحاً متصادم قوانین کو مسلط کرنے اور انہیں ان کی پابندی پر مجبور کرنے کی پالیسی درست نہیں ہے اور اس پر نظر ثانی مغرب اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش کی شدت کو کم کرنے کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے۔

حدود شرعیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ان کے نفاذ کو ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن جرائم میں کوئی کمی نہیں ہوئی، بلکہ پہلے کی بہ نسبت ان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے یہ قوانین آج کے دور میں اپنی افادیت کھو چکے ہیں اور انہیں ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔

اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ یہی قوانین گزشتہ پون صدی سے سعودی عرب میں نافذ ہیں اور جرائم کو کنٹرول کرنے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوئے ہیں اور یہی قوانین ہمارے پڑوس افغانستان میں طالبان نے نافذ کیے تھے اور بین الاقوامی ادارے اور حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ ان قوانین کے ذریعہ طالبان نے اپنے کنٹرول کے دائرے میں جرائم پر قابو پانے کا ہدف حاصل کر لیا تھا۔ یہ دونوں کامیاب تجربات اسی دور کے ہیں اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا کسی صورت میں درست نہیں ہے کہ حدود کے قوانین آج کے دور میں عملیت اور افادیت نہیں رکھتے۔

ہمیں اپنے معاشرے میں ان قوانین کے مؤثر نہ ہونے کے اسباب کو تلاش کرنا ہو گا اور میری طالب علمانہ رائے میں اس کا سب سے بڑا سبب ہمارا عدالتی نظام ہے جو نوآبادیاتی ہے اور قرآن و سنت کے قوانین کی تنفیذ سے کسی طرح مناسبت نہیں رکھتا۔ سعودی عرب میں حدود شرعیہ اس لیے مؤثر ہیں کہ سعودی حکومت نے ان کے نفاذ کے لیے عدالتی نظام بھی وہی فراہم کر رکھا ہے جو ان قوانین سے مطابقت رکھتا ہے اور افغانستان میں طالبان ان قوانین کے ذریعہ جرائم کو کنٹرول کرنے میں اس لیے کامیاب ہوئے تھے کہ انہوں نے ”قضاء شرعی“ کا عدالتی نظام ان قوانین کے لیے قائم کیا تھا۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ قوانین اس لیے مؤثر ثابت نہیں ہوئے کہ ہم نے شرعی قوانین کو نوآبادیاتی انگریزی عدالتی نظام کے ذریعہ نافذ کرنے کا تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے، جو ناکام ہو گیا ہے۔

بہرحال اس پہلو کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں حدود شرعیہ کے نفاذ کو کم و بیش ستائیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود معاشرے میں جرائم پر کنٹرول کا مقصد ابھی تک کیوں تشنہ تکمیل ہے۔ اس کے اسباب کا تعین، عوامل کی نشاندہی اور ان سے عالمی اور ملکی سطح پر لوگوں کو آگاہ کرنا علمائے کرام اور مسلم دانش وروں کی ذمہ داری ہے۔

حدود شرعیہ میں سب سے زیادہ اعتراض زنا کی سزا پر ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں دی جانے والی ایک سزا یعنی سنگسار کر دینا سب سے زیادہ سخت اور سنگین سزا ہے، لیکن اس کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ اسلامی شریعت میں جس جرم کو سب سے سنگین سزا کا مستوجب قرار دیا گیا ہے مغربی فلسفہ و قانون میں وہ سرے سے جرم ہی تصور نہیں ہوتا۔ مغرب کے نزدیک رضامندی کا زنا جرم نہیں ہے، بلکہ بعض صورتوں میں اسے انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ کسی خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ یہ فعل کرنا جرم کہلاتا ہے۔ گویا مغرب کے نزدیک زنا جرم نہیں، بلکہ صرف جبر جرم ہے۔ جبر اگر اپنی بیوی کے ساتھ ہے تو وہ جرم ہے اور رضامندی کے ساتھ زنا کسی اور کی بیوی کے ساتھ ہے تو وہ جرم نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں ایک خاتون رکن قومی اسمبلی نے ٹی وی چینل پر کھلے بندوں یہ مطالبہ کیا ہے کہ بیوی کے ساتھ معاملہ میں جبر کو جرم قرار دیا جائے، یہ اسی مغربی فلسفہ کی عکاسی اور ترجمانی ہے۔ اس لیے اس امر کو واضح کرنا ضروری ہے کہ زنا بجائے خود جرم ہے اور آسمانی تعلیمات یعنی بائبل اور قرآن کریم دونوں کی رو سے اس قدر سنگین جرم ہے کہ دونوں نے اس پر رجم کی سزا مقرر کی ہے۔ جبر الگ جرم ہے، اس کے زنا کے ساتھ شامل ہونے سے زنا کے جرم کی سنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن اگر بالفرض اس فعل مذموم میں جبر شامل نہ ہو تو بھی اس کی اپنی سنگینی میں کمی نہیں ہوتی۔

حدود آرڈیننس پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ان کا استعمال غلط ہو رہا ہے اور لوگ ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے اس قانون کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ عورتوں کو ذلیل کرنے کے لیے مقدمات درج کرائے جاتے ہیں، ایک دوسرے کو اس طرح بدنام کیا جاتا ہے اور مخالفین کے خلاف ان قوانین کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ہمیں اس سے انکار نہیں ہے، لیکن اس کا تعلق ہمارے معاشرتی رویہ سے ہے، قانون سے نہیں۔ اور یہ صرف حدود آرڈیننس میں نہیں ہوتا، بلکہ باقی بہت سے قوانین کا بھی اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ غلط استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قتل کو روکنے اور اقدام قتل کی روک تھام کے لیے ۳۰۲ اور ۳۰۷ کی دفعات ملک میں نافذ ہیں، لیکن نہ صرف یہ کہ یہ قوانین ملک میں قتل کی وارداتوں کو روکنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوتے، بلکہ ان کا بھی بے تحاشہ غلط استعمال ہوتا ہے۔ اگر ملک کے تھانوں میں ان دفعات کے تحت درج ایف آئی آرز کا جائزہ لیا جائے تو پچاس فیصد بھی ایسی نہیں ہوں گی جو بالکل صحیح درج ہوئی ہوں اور ان میں کوئی بے گناہ ملوث نہ کیا گیا ہو۔

قانون کا مؤثر نہ ہونا اور اس کا غلط استعمال حدود آرڈیننس کے علاوہ دوسرے قوانین میں بھی اسی طرح پایا جاتا ہے، مگر ان کے بارے میں کبھی کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ان قوانین کو ختم کر دیا جائے۔ اس لیے حدود آرڈیننس کے بارے میں یہ مطالبہ بھی قطعی طور پر غیر منطقی اور غیر منصفانہ ہے، جس کی کوئی بھی باشعور شخص حمایت نہیں کر سکتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter