ششماہی امتحان کی تعطیلات کا بڑا حصہ حسبِ سابق اس سال بھی کراچی میں گزرا۔ میرے عزیز نواسے حافظ محمد حذیفہ خان سواتی فاضل و مدرس جامعہ نصرۃ العلوم رفیقِ سفر تھے۔ جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن اور مجلس صوت الاسلام کلفٹن میں علماء کرام کی مختلف نشستیں ہوئیں جن میں انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا ناقدانہ جائزہ اور بیت المقدس کے مسئلہ کے تاریخی پس منظر کے علاوہ دورِ حاضر میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات و روابط سے متعلقہ بعض فقہی مباحث موضوع گفتگو تھے۔ میرا اسلوب عام طور پر علمی اور تحقیقاتی کی بجائے مطالعاتی اور تجزیاتی ہوتا ہے جس سے فضلاء و طلبہ کو مکالمہ کا ایک نیا ماحول مل جاتا ہے اور مجھے اپنی بات سمجھانے میں آسانی رہتی ہے۔ کراچی کے سالانہ سفر کے اصل مقصد تو یہی دو پروگرام ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ چند مزید پروگرام بھی اس بار شامل ہوگئے۔
حسنِ اتفاق سے انہی دنوں جامعۃ الرشید کے فضلاء کا سالانہ اجتماع ہو رہا تھا جس کی ایک نشست میں حاضری ہوگئی۔ جامعۃ الرشید جس خوش اسلوبی اور حکمت و تدبر کے ساتھ طلبہ و فضلاء کی فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کا مربوط نظام اپنے مرحلہ وار تعلیمی پروگرام میں سموئے ہوئے ہے اور اس کو مسلسل آگے بڑھا رہا ہے اسے دیکھ کر مولانا مفتی عبد الرحیم، مولانا مفتی محمد، مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور اور ان کے رفقاء کی ٹیم کے لیے دل سے بے ساختہ دعائیں نکلتی ہیں اور جب تک جامعۃ الرشید کے ماحول میں رہتا ہوں زبان حال ’’چشمِ بد دور‘‘ گنگناتی رہتی ہے۔
مولانا فداء الرحمان درخواستی نے اس سال پتھورو میرپور خاص میں جامعہ انوار القرآن کی شاخ مدرسہ تجوید القرآن کے سالانہ اجتماع کا پروگرام رکھا ہوا تھا۔ جمعہ کی نماز وہاں پڑھی اور حفاظ کی دستار بندی میں شرکت کے علاوہ ’’قرآنِ کریم کا ہمارے لیے پیغام‘‘ کے عنوان سے کچھ گفتگو کا موقع ملا۔ اس سے پہلی رات حیدرآباد کی جامع مسجد فاروق اعظمؓ میں وفاق المدارس العربیہ کے زیراہتمام جلسہ میں دینی مدارس کے معاشرتی کردار پر معروضات پیش کیں اور پرانے دوست مولانا عبد المتین قریشیؒ کے برادران کی دعوت پر ان کے گھر میں کچھ وقت گزارا۔ ان کے والد محترم حاجی عبد الشکور قریشی مرحوم و مغفور اور ان کا پورا خاندان تین پشتوں سے جماعتی و مسلکی سرگرمیوں میں مصروف چلا آرہا ہے اور مولانا عبد المتین قریشی مرحوم جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم رہنماؤں میں شامل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین۔ حیدرآباد سے مولانا ڈاکٹر سیف الرحمان ارائیں، قاری حسین احمد درخواستی اور مفتی حبیب احمد درخواستی کے ہمراہ ہم نے پتھورو جانا تھا، راستہ میں ایک اور پرانے جماعتی ساتھی اور سرگرم مسلکی و تحریکی راہنما جناب محمد اسلم شیخ ایڈووکیٹ کی بیمار پرسی کے لیے میرپور خاص رکے جن کا گزشتہ دنوں ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ہوا ہے۔ ان کا حال و احوال معلوم کرنے کے علاوہ اس موقع پر جمع ہونے والے احباب کے ساتھ مختصر گفتگو بھی ہوئی۔ پتھورو انڈیا کے بارڈر کھوکھراپار سے پہلے سرحدی شہر عمر کوٹ کے راستہ میں واقع ہے، وہاں کچھ عرصہ قبل مولانا فداء الرحمان درخواستی نے علاقہ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی جو اب ماشاء اللہ پورے علاقہ میں قرآن کریم کی تعلیم کے ایک بڑے مرکز کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے اور جنگل میں منگل کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس مدرسہ کی بیسیوں شاخیں علاقہ میں کام کر رہی ہیں جو مولانا فداء الرحمان درخواستی بلکہ درخواستی خاندان کے حسنِ ذوق و محنت کی علامت ہے اور حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستی نور اللہ مرقدہ کا ورثہ ہے۔
کراچی میں ہمارے ایک اور فاضل دوست ڈاکٹر سید عزیز الرحمان نے بھی دو پروگراموں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی دعوہ اکیڈمی کے کراچی میں ریجنل سنٹر کے انچارج ہیں جہاں انہوں نے ’’حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ سے عصر حاضر میں استفادہ کی صورتیں‘‘ کے عنوان سے لیکچر کا پروگرام بنا لیا جس میں اربابِ فکر و دانش کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ راقم الحروف نے عصرِ حاضر میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر و فلسفہ پر ہونے والے متنوع کام کا اجمالی تعارف کرایا اور اس بات پر زور دیا کہ حضرت شاہ صاحبؒ کے فکر و فلسفہ کی بنیاد دو باتوں پر تھی۔ ایک یہ کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس سے پوری طرح واقفیت حاصل کر کے اس کے علمی، دینی اور فکری تقاضوں کو پورا کرنے کی محنت کی جائے۔ اور دوسرا یہ کہ مستقبل یعنی آنے والے دور کے حوالہ سے دینی، تہذیبی اور فکری خطرات کی نشاندہی کر کے ان کے سدباب کے لیے قوم کی راہنمائی کی جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے یہ دونوں کام پوری سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ کیے جن کے ثمرات و فوائد سے ہم مسلسل بہرہ ور ہو رہے ہیں اور انہی دو بنیادوں پر آج کے دور میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا پروگرام ڈاکٹر صاحب موصوف کے دادا محترم اور نقشبندی سلسلہ کے معروف بزرگ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہؒ کی خانقاہ میں تھا جہاں گفتگو کا موضوع ’’عصرِ حاضر میں تصوف کے مختلف دائرے‘‘ تھا۔ میں نے عرض کیا کہ تصوف کا ایک بڑا اور اساسی دائرہ تو وہ ہے جو روحانی سلاسل کی صورت میں دنیا کے مختلف حصوں میں مصروفِ عمل ہے اور اس کی معاشرتی ضرورت و افادیت دن بدن نمایاں ہوتی جا رہی ہے، حتیٰ کہ وسطی ایشیا میں پون صدی تک کمیونزم کے جبر اور ترکی میں سیکولرازم کے اتنے ہی عرصہ کے جبر کے بعد جب یہ خطے آزاد ہوئے تو وہاں دینی ذوق و ماحول مسلسل موجود تھا جو جبر کے باعث چھ سات عشرے کمیو فلاج رہا مگر دھند چھٹتے ہی پھر منظر عام پر آگیا۔ اس دوران عام مسلمانوں کا تعلق دین کے ساتھ قائم رہنے کا سب سے بڑا سبب تصوف کو بتایا جا رہا ہے جس نے مسلمانوں کی آخری اور محفوظ دینی دفاعی لائن کا کام دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وسطی ایشیا میں نقشبندی سلسلہ اور ترکی میں قادری سلسلہ نے اس حوالہ سے نمایاں کردار ادا کیا۔ اگرچہ تصوف کے اس سلسلہ میں رسمیت، موروثیت اور ’’پروفیشنلزم‘‘ کے رجحانات بھی بہت بڑھے ہیں لیکن اصل ماحول بھی بہرحال موجود ہے اور اس نے موجود رہنا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس کے ساتھ یہ گزارش بھی کی کہ تصوف کے اسی دینی و معاشرتی کردار کی وجہ سے اس کا ایک اور پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ امریکی تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ نے عالمِ اسلام میں شریعت کی عملداری کے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے کے لیے ’’صوفی اسلام‘‘ کا کارڈ استعمال کرنے کی تجویز دی ہے جس پر منصوبہ بندی کے ساتھ عمل بھی ہو رہا ہے اور پاکستان کے ماحول میں ماضیٔ قریب میں محسوس کی جانے والی بعض تبدیلیاں اسی کا شاخسانہ نظر آرہی ہیں۔ لیکن ابھی سے یہ نظر آنے لگا ہے کہ یہ مصنوعی کارکردگی زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی اور حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ، حضرت شاہ محمد راشد سندھیؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا اصل تصوف جنوبی ایشیا میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔