(ماہِ ربیع الاول کی مناسبت سے پاکستان ایئرفورس بیس لاہور کے تربیتی کیمپ کی مسجد میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت بیس کے کمانڈر جناب محمد افضل عباسی نے کی۔ اس تقریب سے مولانا راشدی کا خطاب پیش کیا جا رہا ہے۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مبارکہ کے سینکڑوں پہلو ایسے ہیں جن پر گفتگو کا ذہن میں تقاضا ہوتا ہے، بسا اوقات اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اس بحرِ ناپیدا کنار کے کسی ایک رخ کا تعین مشکل ہو جاتا ہے لیکن آج میں اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ بحیثیت نبی اور رسول، تاریخ کے ریکارڈ میں جناب نبی اکرمؐ کا پہلا تعارف کیا تھا؟
جناب رسول اکرمؐ مکہ مکرمہ کے ماحول میں اپنی زندگی کے ۴۰ برس گزار چکے تھے اور اپنے اردگرد پھیلے ہوئے کفر و شرک سے پریشان ہو کر حالات کی اصلاح کے امکانات اور طریقوں پر غور و خوض فرماتے رہتے تھے۔ غارِ حرا میں کئی کئی روز تک خلوت گزین رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ قوم اور انسانیت کی حالتِ زار پر غور کرتے تھے۔ اس ماحول میں غارِ حرا کی خلوت گزینی کے دوران حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور آنحضرتؐ کو وحی الٰہی کا سب سے پہلا پیغام پہنچایا جو قرآن کریم کی ابتدائی پانچ آیتوں پر مشتمل تھا۔ اس میں یہ حکم دیا گیا کہ:
’’اپنے رب کے نام پر پڑھیے جس نے انسان کو پیدا کیا اور قلم کے ذریعے تعلیم دی۔‘‘
میں ان آیات کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا مگر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ان میں تین اہم باتوں کا حوالہ دیا گیا ہے: قراءت، تعلیم اور قلم۔ اور تینوں باتیں اس ماحول میں کہی گئی ہیں جو قلم سے متعارف نہیں تھا اور جسے امیوں کا معاشرہ کہا جاتا تھا۔ اس لیے امتِ مسلمہ کی حیثیت سے ہمارا پہلا سبق قراءت، علم اور قلم کے حوالے سے ہے۔ اگر اس کے ساتھ جناب رسول اکرمؐ کے اس ارشاد کو بھی شامل کر لیں کہ:
’’میں معلم اور استاد بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی الٰہی کے نزول کے بعد پہلا تعارف ہے جو ہمیں تاریخ کے ریکارڈ میں ملتا ہے۔
اس کے بعد دوسرا تعارف ہمارے سامنے تاریخ یہ پیش کرتی ہے کہ جب غارِ حرا کے اس اچانک واقعہ پر آنحضرتؐ پر کچھ گبھراہٹ کی کیفیت طاری ہوئی اور اسی گھبراہٹ میں آپؐ گھر تشریف لائے تو ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپؐ کو تسلی اور حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں ہونے دے گا، اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بیواؤں اور یتیموں کا سہارا بنتے ہیں، محتاج لوگوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مسافروں کی خدمت کرتے ہیں، اور ناگہانی آفتوں پر متاثرین کی امداد کرتے ہیں۔‘‘
یہ جناب نبی اکرمؐ کا دوسرا تعارف ہے جو وحی کے نزول کے حوالے سے حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اور میں اس بات کو آگے بڑھانے سے پہلے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ اس دور کی بات ہے جب نسلِ انسانی اس حوالے سے افراط و تفریط کا شکار تھی:
- ایک طرف رہبانیت تھی کہ بہت سے لوگ سوسائٹی سے لاتعلق ہو کر اور تمام رشتوں و تعلقات کو منقطع کر کے ویرانوں اور جنگلوں میں جا بیٹھتے تھے، اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے تھے، نفس کشی کی ریاضتیں کرتے تھے اور زندگی کے بہت سے معاملات کو ترک کر دیتے تھے۔
- جبکہ دوسری طرف سوسائٹی کے لوگوں کی اکثریت ایسے افراد کی تھی جو خدا کو بالکل ہی بھلا چکے تھے۔ قرآنِ کریم نے انہی کو سامنے رکھ کر فرمایا تھا کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا۔
ایک طرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور رضا کی خاطر سوسائٹی سے لاتعلق ہوجانے کا طرز عمل تھا اور دوسری طرف سوسائٹی کے معاملات میں پھنس کر خدا کو بھول جانے کا رویہ تھا۔ ان دونوں انتہاؤں کے ماحول میں جناب رسول اکرمؐ کی سیرتِ طیبہ کا یہ حصہ پوری نسلِ انسانی کے لیے سبق کی حیثیت رکھتا ہے کہ ایک ہی وقت میں غارِ حرا کی خلوت بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سوسائٹی کے نادار افرد کی خدمت بھی۔ دونوں کام ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور انسانوں کو خالق اور مخلوق کے ساتھ معاملات میں توازن قائم کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
جناب نبی اکرمؐ نے زندگی بھر خدا اور بندوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے کا سبق دیا ہے۔ ایک طرح سے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ پیدا کرنے والے خدا اور اردگرد رہنے والے انسانوں کے ساتھ معاملات کو توازن میں رکھو اور دونوں کے حقوق کو اپنے اپنے وقت میں پورا کرنے کی کوشش کرو۔ حقوق کی بات دنیا بھی کرتی ہے اور اسلام بھی کرتا ہے۔ لیکن اسلام نے حقوق میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو شمار کیا ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ اردگرد رہنے والے انسانوں کے حقوق بھی تمہارے ذمے ہیں لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے پہلے پیدا کرنے والے، روزی دینے والے اور بے شمار نعمتوں سے نوازنے والے رب کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ ان حقوق کے درمیان توازن کا نام ہی اسلام ہے اور جناب رسول اکرمؐ نے نسلِ انسانی کو یہی سب سے بڑا پیغام دیا ہے۔
یہاں میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ حضرت محمدؐ تاریخِ انسانی کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے علاقائی، نسلی اور لسانی دائروں سے بالاتر ہو کر نسلِ انسانی سے خطاب کیا ہے اور اپنی دعوت کا آغاز ’’ایھا الناس‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ جناب نبی اکرمؐ کا پیغام اور تعلیم پوری نسل انسانی کے لیے ہے اور آپؐ گلوبل رسول اور نبی ہیں۔ اس حوالہ سے میں ایک روایت کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جو ہم کم و بیش نکاح کی ہر تقریب میں پڑھے جانے والے خطبہ میں سنتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ:
’’نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
یہ جملہ تو ہم اکثر پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں لیکن اس کا پس منظر بھی سامنے آجائے تو لطف دوبالا ہو جائے گا، بلکہ نسلِ انسانی کے نام جناب نبی اکرمؐ کے بنیادی پیغام کے عنوان سے میں جو بات عرض کر رہا ہوں، وہ بھی زیادہ نکھر کر سامنے آجائے گی۔ مدینہ منورہ میں نبی کریمؐ کے چند صحابہ کرامؓ نے باہمی مشورہ کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے دنیا کے تعلقات اور سوسائٹی کے معاملات میں کمی کرنی چاہیے، اس کے لیے انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا۔ ایک نے کہا کہ میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا، دوسرے نے کہا کہ میں ساری زندگی رات کو سونے کی بجائے تمام رات عبادت کیا کروں گا، اور تیسرے نے کہا کہ میں ساری زندگی بلاناغہ روزہ رکھا کروں گا۔ حضورؐ کو معلوم ہوا تو طلب فرما لیا اور اس بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے واقعی ایسا کیا ہے۔ اس پر آپؐ نے ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ میں تم سب سے زیادہ خدا خوفی رکھتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ میرے دل میں ہے، اس کے باوجود میں نے شادیاں بھی کی ہیں، بچے بھی پال رہا ہوں، کھاتا پیتا بھی ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں، پھر فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت سے منہ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ نسل انسانی کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا اور بنیادی پیغام یہ ہے کہ اپنے رب کو بھی یاد رکھو اور سوسائٹی اور تمدن کے تقاضے بھی پورے کرو، پیدا کرنے والے خالق کے حقوق بھی ادا کرو اور ساتھ رہنے والے انسانوں کے حقوق بھی پورے کرو، دونوں کے حقوق بیک وقت اور توازن کے ساتھ ادا کرنے کا نام اسلام ہے، اور یہی جناب رسول اکرمؐ کی دعوت اور آپؐ کی سنتِ مبارکہ ہے۔