بہت سے احباب کو بعض معاملات میں مجھ سے شکایت رہتی ہے مگر ان دوستوں کے تمام تر خلوص و محبت کے باوجود ایسی شکایات کا ازالہ میرے بس میں نہیں ہوتا۔ مثلاً وقتاً فوقتاً مختلف مقامات میں دینی و علمی تقریبات میں شریک ہوتا ہوں تو وہاں کے دوستوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس تقریب کے حوالہ سے کالم لکھوں اور اس میں کی جانے والی گفتگو بھی ریکارڈ میں لاؤں، جو کہ اس لیے ناقابل عمل ہو جاتا ہے کہ یہ کالم پھر اسی کام کے لیے مخصوص ہو جائے گا اور باقی اہم موضوعات نظرانداز ہو جائیں گے۔ جبکہ میں تقریبات اور ان میں ہونے والی گفتگو کے حوالہ سے لکھتا ہوں تو اس کا اصل باعث دینی جدوجہد کی فکری و تحریکی ضروریات ہوتی ہیں اور انہی کے پیش نظر بعض تقریبات کا ذکر کر دیتا ہوں۔ اسی طرح بعض دوست اپنی تصنیفات اس تقاضے کے ساتھ بھجوا دیتے ہیں کہ کالم میں ان پر تبصرہ کروں، مگر یہ بھی اسی وجہ سے قابل عمل نہیں ہوتا جس کا ابھی ذکر کر چکا ہوں۔ ان میں سے کوئی کتاب میرے ذاتی ذوق و مطالعہ کی ہو تو خود رکھ لیتا ہوں ورنہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری میں رکھوا دیتا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل ایک دوست نے شکوہ کے ساتھ مطالبہ کیا کہ اگر تبصرہ نہیں کرنا تو کتاب واپس بھیج دو، مگر چونکہ یہ کتابیں میرے کسی تقاضے کے بغیر آتی ہیں اس لیے ان کی واپسی کو ضروری نہیں سمجھتا۔ البتہ اس حوالہ سے دینی جدوجہد کے نظریاتی اور تحریکی تقاضوں کے باعث بعض کتابوں کا تذکرہ کر دیتا ہوں کہ متعلقہ کتاب کسی اہم فکری و دینی ضرورت کو پورا کر رہی ہوتی ہے اور خود میری خواہش ہوتی ہے کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ دوستوں کے مطالعہ میں آئے، اسی تناظر میں دو نئی کتابوں کا تذکرہ آج کے کالم میں کر رہا ہوں۔
۱۶ جنوری کو مچھلی فارم فیصل آباد کے قریب النصیحہ فاؤنڈیشن کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا جو فیصل آباد کے معروف صحافی جناب محمد خالد عبد اللہ کی تصنیف ’’استعماری فتوحات کا تسلسل‘‘ کی رونمائی کے لیے منعقد ہوئی، جس میں فاؤنڈیشن کے سربراہ مولانا مفتی سعید احمد نے اصحاب فکر و دانش کے ایک منتخب اجتماع کا اہتمام کر رکھا تھا۔ یہ کتاب استعماری قوتوں کے طریق کار اور مسلسل سرگرمیوں کے بیسیوں پہلوؤں پر محمد خالد عبد اللہ کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے عالم اسلام بالخصوص پاکستان اور مشرق وسطٰی کے نوآبادیاتی ماحول اور ان کے داخلی امور میں استعماری قوتوں کی مسلسل مداخلت کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اور بتایا ہے کہ مغربی استعمار نے مسلم ممالک کو کس طرح اپنے مفادات کا اسیر بنایا، انہیں قابو میں رکھنے کے لیے کون کون سے حربے استعمال کیے، اس تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے اب استعماری ممالک عالم اسلام اور پاکستان کے بارے میں کیا چالیں چل رہے ہیں، اور ان کے کون کون سے ادارے اور ایجنسیاں کس کس طرح پاکستان میں موجود اور سرگرم عمل ہیں؟ مثلاً امریکی ادارے بلیک واٹر کی پاکستان میں سرگرمیوں کے بارے میں ہم اکثر سنتے پڑھتے رہتے ہیں، اس کی تفصیلات زیرنظر کتاب کے مصنف نے کئی صفحات میں ترتیب کے ساتھ بیان کی ہیں اور اس کے طریق واردات کو بے نقاب کیا ہے۔ اسی طرح اس قسم کے دیگر معاملات پر بھی مصنف نے قلم اٹھایا ہے اور معروضی صورتحال سے قوم کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب گزشتہ ایک صدی کی اسی نوعیت کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے اور پاکستان و افغانستان سمیت بہت سے ممالک کے بارے میں سازشوں کے نئے رجحانات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس کتاب کے حصول کے لیے النصیحہ فاؤنڈیشن فیصل آباد (فون 03214441516) سے رابطہ کیا جا سکتا ہے اور ہمارے خیال میں عالم اسلام کے خلاف استعماری سازشوں کی معروضی صورتحال سے آگاہی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔
دوسری کتاب بھی اسی موضوع پر ’’مغربی استعمار اور عالم اسلام‘‘ کے نام سے ہے جو لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک فاضلہ خاتون سعدیہ شیخ کا تحقیقی مقالہ ہے اور اس میں استعمار کی تعریف و تاریخ کے ساتھ ساتھ عالم اسلام پر استعماری یلغار و تسلط اور نوآبادیاتی دور کے ظاہری خاتمہ کے بعد شروع ہونے والے موجودہ نواستعماری دور کے خدوخال کو واضح کرتے ہوئے نواستعماری طاقتوں کے حربوں اور طریق کار کے علاوہ عالم اسلام میں ان کے اہداف کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔ سعدیہ شیخ ایک با ہمت خاتون ہیں جو پورے فہم و شعور اور حوصلہ و عزم کے ساتھ استعماری عزائم کو بے نقاب کرنے کے مشن میں مصروف ہیں۔ میں جن حضرات کے لیے مسلسل دعاگو رہتا ہوں ان میں ہماری یہ با ہمت بیٹی اور اس کا خاندان بھی ہے اور سچی بات ہے کہ ایسے بچوں اور بچیوں کو دیکھ کر ہمیں بھی حوصلہ ملتا ہے۔ مصنفہ اس مقالہ کے بارے میں خود لکھتی ہیں کہ:
’’میری اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کی ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی جائے جن کی وجہ سے ایک شاندار اور پرشکوہ ماضی کی حامل یہ عظیم امت عصرِ حاضر میں ذلتوں اور پستیوں کا شکار ہے۔ اور ساتھ ہی مغرب کے ان حربوں اور ہتھکنڈوں کا جائزہ لیا جائے جس کے ذریعے انہوں نے اس مابعد نوآبادیاتی دور (Post Colonial Age) میں بھی مسلمان خطوں کو نادیدہ زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ عصر حاضر میں انہی استعماری حربوں کو (Neo Colonialism) یا نواستعماریت کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نواستعماری دور کہلاتا ہے۔ اس مقالہ میں میں نے اپنی بساط کی حد تک ان تمام عوامل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جو اس نواستعماری دور میں عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کارفرما ہیں۔‘‘
پونے تین سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ کتاب معروف طباعتی ادارہ ’’کتاب محل‘‘ دربار مارکیٹ، لاہور نے شائع کی ہے اور اس کے حصول کے لیے فون نمبر (03218836939) پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔