انسانی سماج لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہے اور اس میں ہر پیش رفت کو ارتقا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ تغیر اور پیش رفت سوسائٹی کے مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لیے ہر آنے والے دور کو پہلے سے بہتر قرار دے کر اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور اسے نظرانداز کرنے کو قدامت پرستی اور معاشرتی جمود کا عنوان دے دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آج کی مروجہ عالمی تہذیب و قوانین کو ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ کے عنوان سے انسانی سماج کی سب سے بہتر صورت اور آئیڈیل تہذیب کے ٹائٹل کے ساتھ پوری نسل انسانی کے لیے ناگزیر تصور کیا جاتا ہے اور دنیا کے تمام مذاہب اور تہذیبوں سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ اسے قبول کر لیں اور اس کے ساتھ ایڈجسٹ ہو کر اپنے امتیازات اور الگ تشخصات سے دستبردار ہو جائیں۔ اس تصور بلکہ مقدمہ کا حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے چنانچہ اس سلسلہ میں ہم کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
وقتاً فوقتاً مختلف قوموں اور علاقوں کی طرف حضرات انبیاء کرامؑ مبعوث ہوتے رہے اور انہیں جس بھی معاشرہ اور سماج کا سامنا کرنا پڑا وہ اس وقت کا ارتقائی معاشرہ تھا جو سوسائٹی کے باہمی احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کا نتیجہ تھا۔ مگر انبیاء کرامؑ نے اسے من و عن قبول کرنے کی بجائے اس کی بہت سی باتوں کی اپنے اپنے دور میں نفی کی اور ان میں اصلاحات کا پروگرام پیش کیا۔ یہ سلسلہ صرف اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان معاملات یعنی عقیدہ و عبادت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں معاشرتی مسائل اور سماجی امور بھی شامل تھے۔
مثلاً حضرت شعیب علیہ السلام کا قرآن کریم نے تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توحید کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے ایک اہم سماجی مسئلہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ تجارت میں بد دیانتی، ماپ تول میں کمی اور اشیائے صرف کے معیار میں نقصان سوسائٹی میں فساد کا باعث بنتا ہے اس لیے وہ اس سے باز آجائیں۔ جس کے جواب میں قوم نے ’’اصلاتک تأمرک‘‘ کہہ کر یہ طعنہ دیا کہ کیا تمہاری نمازیں تمہیں یہ باتیں سکھاتی ہیں جو تم ہم سے کر رہے ہو؟ گویا نماز اور عبادت کا معاشرتی معاملات کے ساتھ کوئی تعلق قومِ شعیبؑ کے لیے بھی قابل قبول نہیں تھا۔
حضرت لوط علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے صرف عقیدہ و عبادت کی بات نہیں کی بلکہ اس وقت کی سب سے بڑی معاشرتی برائی ’’ہم جنس پرستی‘‘ کی مذمت کی اور ’’انکم قوم تجہلون‘‘ کہہ کر اسے جاہلیت کی علامت قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمہ کو اپنی جدوجہد کے اہداف میں شامل کیا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ فرعون کے دربار میں دعوتِ دین کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کا پیغام توحید و عبادت کے ساتھ ساتھ اس دور کے مجموعی سماج کے حوالہ سے بھی تھا جس پر فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ دونوں شخص جادوگر ہیں جو تمہیں تمہارے ملک و اقتدار سے محروم کرنے اور ’’ویذہبا بطریقتکم المثلیٰ‘‘ تمہاری آئیڈیل تہذیب کو ختم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ چنانچہ فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسٰیؑ کی دعوت کو سیاسی اور سماجی تبدیلی کا عنوان دے کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوئے۔
یہ تینوں قومیں ان پیغمبروں کی تشریف آوری سے قبل جس مقام پر کھڑی تھیں وہ اس دور کا سماجی ارتقا تھا، جہاں تک وہ اپنے مشاہدات و تجربات اور احساسات و جذبات کے ذریعے پہنچی تھیں اور وہی اس دور کا ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے اسے مسترد کر دیا اور اس کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی حتیٰ کہ وہ قومیں ان کی بات قبول نہ کرنے کے جرم میں عذاب خداوندی سے دوچار ہوگئیں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو انہیں شرک اور بت پرستی کے ساتھ ساتھ بہت سی سماجی قدروں اور معاشرتی روایات و رواجات کا بھی سامنا تھا۔ چنانچہ جناب رسول اکرمؐ نے اپنی تئیس سالہ جدوجہد میں صرف بت پرستی اور شرک کو ہدف نہیں بنایا بلکہ زنا، شراب، جوا، نسل پرستی، فحاشی، ناچ گانا، لسانی تفاخر اور دیگر بہت سی سماجی قدریں بھی ان کی جدوجہد کا ہدف تھیں جو ظاہر ہے کہ اس وقت تک کے سماجی ارتقا اور تہذیبی ترقی کی علامت تھیں۔ اور اگر آج کی اصطلاح میں بات کی جائے تو اس دور کا ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ وہی سماج اور سوسائٹی تھی جسے جناب نبی اکرمؐ نے صبر آزما محنت کے ساتھ تبدیل کیا۔ جبکہ آنحضرتؐ کی دعوت و محنت کا یہ امتیاز بھی تھا تاریخ انسانی کا حصہ ہے کہ آپؐ نے کسی قوم یا علاقے تک اپنی تگ و تاز کو محدود رکھنے کی بجائے ’’ایہا الناس‘‘ کہہ کر پوری نسل انسانی کو دعوت و محنت کی جولانگاہ بنایا جس کے نتیجے میں آپؐ کی لائی ہوئی سماجی تبدیلیاں صرف ایک صدی میں دنیا کے مختلف ممالک بلکہ بر اعظموں تک پھیل گئیں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت سے بیسیوں سماجی قدریں تبدیل ہوئیں حتیٰ کہ بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسول نے سماج کے ارتقا کو مسترد کر کے معاملات کو ماضی کی طرف لوٹا دیا۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے یہودیوں نے زنا کا ایک مقدمہ حضورؐ کی عدالت میں پیش کیا تو وہ زنا کی سزا کے حوالہ سے توراۃ کے حکم میں لچک پیدا کر کے الگ ماحول بنا چکے تھے جس سے تورات کا قانون تغیرات سے گزر کر نئی شکل اختیار کر چکا تھا۔ مگر نبی کریمؐ نے اس سماجی ارتقا کو مسترد کر کے توراۃ کے اصل حکم کو بحال کیا اور زنا کا ارتکاب کرنے والے یہودی جوڑے کو سنگسار کر دیا۔ اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب معاشرہ میں مرد اور عورت کے جنسی تعلق کی متعدد صورتیں رائج تھیں جنہیں سماجی طور پر جائز تسلیم کیا جاتا تھا، جو ظاہر ہے کہ سماجی ارتقا کی ہی علامت تھیں، مگر آنحضرتؐ نے انہیں یکسر تبدیل کر دیا۔
چنانچہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ مبارکہ یہ ہے کہ انسانی سماج کا ہر ارتقا قابل قبول نہیں ہے بلکہ جو سماجی ارتقا آسمانی تعلیمات اور خدائی احکام و قوانین سے متصادم ہو اسے مسترد کرنا اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کا اصل تقاضا ہے۔