انگریز مؤرخ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے بقول ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے فرنگی حربے کو آزمایا گیا اور شرک و بدعت کے خلاف شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد شہیدؒ کی اصلاحی تحریک کو غلط رنگ دے کر ان کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کا طوفان کھڑا کر دیا گیا، اور تخویف و تحریص کے حربوں سے متعدد قبیلوں کے سرداروں کو امیر المومنین سید احمد شہیدؒ سے باغی کر دیا گیا۔ نتیجۃً مجاہدین کا قافلہ امیر المومنین سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی معیت میں بالاکوٹ کی وادی میں شیر سنگھ کی فوج اور اس کی پشت پر فرنگی ڈپلومیسی کا مقابلہ کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں مات کھا گیا۔ اور ان عظیم مجاہدین نے وادی بالاکوٹ کو اپنے مقدس خون سے لالہ زار کر کے آنے والی نسل کو آزادی و خودمختاری کے حصول کی راہ دکھا دی۔
یہ تحریک ولی اللہی کی سخت جانی اور بلند حوصلگی کا واضح ثبوت ہے کہ ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں ایک پورے قافلہ کے ذبح ہو جانے کے بعد بھی اس کے عزائم میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بلکہ اس واقعہ نے تحریک ولی اللہی کے لیے مہمیز کا کام دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس معرکۂ حریت کے صرف ۲۷ برس بعد ۱۸۵۷ء میں تحریک ولی اللہی ایک اور جنگِ آزادی کا اہتمام کر چکی تھی جس نے فرنگی اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔
سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شہادت کے بعد ایک طرف صادق پور کے جانباز علماء نے جہادِ آزادی کی رسم کو زندہ رکھا، اور دوسری طرف دہلی کا تحریکی مرکز براہ راست فرنگی سے ٹکر لینے کی تگ و دو میں مصروف ہو گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء کا عظیم الشان معرکۂ حریت جسے آج بھی فرنگی کے چاپلوس غدر کے نام سے یاد کرتے ہیں، تحریکِ ولی اللہی کی طرف سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ جنگ تھا جس میں ہزاروں علماء کرام اور مجاہدین نے خون کا نذرانہ دے کر تحریکِ آزادی کی آبیاری کی۔
دہلی کے محاذ پر انگریز فوج کو ناکوں چنے چبوانے والے عظیم مسلم جرنیل جنرل بخت خان روہیلہؒ نے شہیدِ بالاکوٹ امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کے مریدِ خاص مولانا سرفراز علیؒ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی تھی۔ اور شاملی محاذ پر امام ولی اللہؒ کے فکری خوانوادہ کے نامور چشم و چراغ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا رحمۃ اللہ کیرانویؒ اور حضرت حافظ ضامن شہیدؒ بنفسِ نفیس مسلح جنگ کی قیادت کر رہے تھے۔ اور دوسرے محاذوں پر علامہ فضلِ حق خیر آبادیؒ، مولانا محمد جعفر تھانیسریؒ، مولانا عبد الجلیل شہیدؒ، مفتی عنایت علی کاکورویؒ اور شہزادہ فیروز شاہؒ جیسے عظیم مسلم رہنماؤں نے فرنگی کے خلاف آزادی کی اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔
جنرل بخت خان دہلی کے محاذ پر دشمن کی کمر توڑ چکا تھا کہ اچانک بعض ’’اپنوں‘‘ کی غداری اور اولی الامر کے پیروکاروں کی سازش نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا، جس سے آزادی کی یہ عظیم جنگ وقتی طور پر شکست سے دوچار ہو گئی۔ ۱۸۵۷ء کے اس ناکام انقلاب کے بعد تہذیب و تمدن اور امن و شرافت کے علمبردار یورپ نے آزادی کے متوالوں کو جس درندگی کے ساتھ انتقام کا نشانہ بنایا اس نے ہلاکو اور چنگیز کی بربریت کو بھی شرما کے رکھ دیا۔ ہزاروں علماء تختۂ دار پر لٹکا دیے گئے، ہزاروں کی جاگیریں اور جائیدادیں ضبط کر لی گئیں، اور سینکڑوں کو کالاپانی کے جزیرہ میں بند کر دیا گیا۔ علماء کو زمین میں گاڑ کر ان پر بھوکے کتے چھوڑے گئے، انہیں چونے کے ڈھیروں میں دبانے کے بعد اوپر سے پانی ڈال کر جلا دیا گیا، انہیں توپ کے منہ پر باندھ کر گولے کے ساتھ اڑایا گیا، مگر ہزار آفرین اس بے غیرتی پر کہ نشاۃِ ثانیہ کے نام نہاد ٹھیکیدار انگریز کلکٹروں کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر ان مناظر کا تماشہ دیکھتے رہے اور پھر اسے اپنی تصانیف میں فخر کے ساتھ ذکر بھی کیا۔
۱۸۵۷ء کے معرکۂ حریت کو کچلنے کے بعد برطانوی حکومت نے برصغیر کا انتظام ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہ راست اپنی تحویل میں لے لیا اور مسلمانوں کے بارے میں اپنی آئندہ پالیسی کی بنیاد اسی حکمتِ عملی پر رکھی:
- دینی مدارس کو توڑ کر علماء کی قوت کو ختم کر دیا جائے اور نیا نظامِ تعلیم رائج کر کے نئی نسل کو اسلام اور علماء اسلام سے دور کر دیا جائے۔
- قانون کا مروجہ نظام ختم کر کے ایسا پیچیدہ غیر ملکی نظامِ قانون رائج کیا جائے جس سے یہ لوگ خالصتاً فرنگی زبان کے رحم و کرم پر رہ جائیں، اور جرائم میں کمی ہونے کی بجائے بتدریج اضافہ ہوتا چلا جائے۔
- تہذیب و ثقافت کے نام پر اس قوم کو بے حیائی، بے غیرتی و رقص و سرود کا خوگر بنا دیا جائے تاکہ غیرت و حمیت سے اس قوم کو بے بہرہ کر کے اپنے مقاصد کے لیے حسبِ منشا استعمال کیا جا سکے۔
- اس ملک کی صنعت و حرفت کو برباد کر کے اسے ہمیشہ کے لیے یورپی صنعت کا دست نگر اور یورپی مال کی مستقل منڈی بنا دیا جائے۔
یہ بنیادی مقاصد تھے جو انگریز اس ملک میں حاصل کرنا چاہتا تھا اور جن کے حصول پر اس کے آئندہ اقتدار کا دارومدار تھا۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے اپنی پوری قوت اور وسائل صَرف کر دیے۔
لیکن اس محاذ پر بھی اسے علماء حق کی زبردست قوتِ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور امام ولی اللہؒ کی پارٹی نے، جسے انگریز بزعمِ خود لاشوں کے ڈھیر میں دفن کر چکا تھا، فرنگی کے تعلیمی، تہذیبی اور دینی چیلنج کو بھی قبول کر لیا۔ اور محاذ شاملی کے سپہ سالار حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دیوبند کے قصبہ میں دارالعلوم کی بنیاد رکھ کر اسلامی علوم کی امداد باہمی کی بنیاد پر حفاظت نیز اسلامی طرزِ معاشرت اور اقدار کے تحفظ کی عظیم مہم کا آغاز فرمایا۔ پھر اس کے بعد برصغیر میں دوسرے مدارس قائم ہوئے اور رفتہ رفتہ امداد باہمی کی بنیاد پر دینی مدارس کا پورے ملک میں جال پھیل گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس ذہن، طرز اور کردار کو انگریز حرفِ غلط کی طرح مٹا دینا چاہتا تھا، اس کے مظاہر قریہ قریہ بستی بستی نظر آنے لگے۔
دارالعلوم کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ کہتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اس مثل کے مطابق دیکھا تو دارالعلوم کے سب سے پہلے طالب علم شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ نے جب سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا تو چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ اس مردِ قلندر و درویش کے ہاتھوں فرنگی کے خلاف افغانستان، ترکی اور ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی مشترکہ تحریک کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ جسے دنیا ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کا نام دیتی ہے۔ جس کے تحت افغانستان اور ترکی سے بات طے پا چکی تھی کہ ترکی کی فوج افغانستان کے راستہ ہندوستان پر حملہ آور ہو گی اور ملک کے اندر تحریکِ آزادی کا علمِ بغاوت بلند کر دے گی، اور اس طرح فرنگی کے جابرانہ تسلط سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے گا۔ معاہدہ طے پا چکا تھا۔ راجہ مہندر پرتاپ صدر، مولانا برکت اللہؒ وزیر اعظم، مولانا عبید اللہ سندھیؒ وزیر خارجہ، اور شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کمانڈر انچیف پر مشتمل آزاد کابینہ کی تشکیل ہو چکی تھی۔ اور غالباً تاریخ بھی مقرر ہو گئی تھی کہ کسی بدبخت کی مخبری سے معاہدہ کے کاغذات فرنگی کے ہتھے چڑھ گئے۔ شیخ الہندؒ کو ان کے رفقاء سمیت جزیرہ مالٹا میں قید کر دیا گیا۔ مولانا عبید اللہ سندھیؒ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اس عظیم منصوبہ کے ایک کردار اور شیخ الہندؒ کے رفیقِ جیل حضرت مولانا عزیر گل دامت برکاتہم آج بھی زندہ ہیں اور مردان کے قریب سخاکوٹ کے ایک نواحی گاؤں ’’سیرے‘‘ میں قیام پذیر ہیں۔
تحریکِ ریشمی رومال کی ناکامی پر بھی ولی اللہی پارٹی نے حوصلہ نہیں ہارا، بلکہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ کی مالٹا کے جزیرہ سے رہائی کے بعد جب جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد رکھی گئی اور حضرت شیخ الہند کو ضعیف العمری میں اس کے پہلے اجلاس کی صدارت فرمانے کی درخواست کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ ’’اگر میرے اس اجلاس کی صدارت کرنے سے انگریز کو تکلیف ہوتی ہے تو میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘
اور پھر برصغیر کی تاریخ میں یہ سبقت بھی ولی اللہی پارٹی کے حصہ میں آئی کہ آئینی جدوجہد شروع ہو جانے کے بعد بھی ہندوستان کی مکمل آزادی اور انگریز سے برصغیر چھوڑ دینے کا مطالبہ سب سے پہلے ۱۹۲۶ء میں اسی پارٹی نے جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے کیا۔