خلافت کا قیام ۔ ایک بھولا ہوا سبق!

   
۲۷ اگست ۲۰۰۶ء

برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے چند برس قبل اپنی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتہا پسند مسلمان دنیا میں خلافت کو بحال کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اسی بات کو اب امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ نے ایک مضمون میں اس انداز سے دہرایا ہے کہ امریکہ اگر عراق سے نکل گیا تو انتہا پسند مسلمان مراکش سے انڈونیشیا تک خلافت قائم کر لیں گے۔

گویا وہ خلافت جس کا صدیوں کی منصوبہ بندی کے ساتھ یورپ نے ۱۹۲۴ء میں خاتمہ کر دیا تھا اور جسے خود مسلمانوں کے ہاتھوں اس کے وجود اور تسلسل سے محروم کر دیا تھا، اس کا خوف ابھی تک مغربی لیڈروں پر مسلط ہے اور وہ اس بات کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہو رہے کہ عالم اسلام کے گرد سیاسی، اقتصادی، سائنسی اور عسکری حصار اور اس کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اصل مقصد خلافت کے قیام کو روکنا اور مسلم ممالک میں اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کی کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔ آخری دور میں خلافت عثمانیہ اگرچہ ظاہری وسائل و اسباب کے حوالے سے ایک کمزور حکومت تھی اور اسے ’’یورپ کا مرد بیمار‘‘ کہا جاتا تھا لیکن اس خلافت نے پہلی دو صدیاں جس دبدبہ کے ساتھ گزاری ہیں اور دنیا کے ایک بڑے حصے پر جس وقار اور رعب کے ساتھ حکومت کی ہے، اس کی یاد مغربی دانشوروں کے ذہنوں میں بدستور باقی ہے اور وہ دنیا میں خلافت کے ادارے کو دوبارہ وجود میں آنے کا موقع دینے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں ہیں۔

اب سے صرف ایک سو برس پہلے کی بات ہے جب مغرب کے دانشوروں نے عربوں کو یہ سبق پڑھایا کہ ان پر عجمی حکمران ’’خلافت‘‘ کے نام سے حکومت کر رہے ہیں اس لیے انہیں عجمی خلافت سے چھٹکارا حاصل کر کے عربی بلکہ ہاشمی خلافت کے قیام کی طرف پیشرفت کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ترکوں کو یہ سبق پڑھایا گیا کہ وہ یورپین ہیں اور بالاتر قوم ہیں اس لیے انہیں اسلام اور عربوں سے پیچھا چھڑا کر مغرب کے آزاد خیال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔ عربوں اور ترکوں نے یہ سبق پڑھ لیا اور اس پر عمل بھی کیا لیکن خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کو پون صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ عربوں کو ’’عرب خلافت‘‘ کی منزل حاصل ہوئی اور نہ ہی ترکی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کر سکا۔ البتہ خلافت کی تحریکوں کا ایک تسلسل ضرور قائم ہے جو مختلف مسلم ممالک میں اس فکر اور یاد کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ جنوبی ایشیا میں مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ کی قیادت میں بپا ہونے والی ’’تحریک خلافت‘‘ تو ترکی کی خلافت عثمانیہ کو بچانے کی تحریک تھی جو برطانیہ اور اس کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے چلائی گئی تھی تاکہ وہ ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف آخری حد تک جانے سے گریز کریں اور کسی نہ کسی طرح خلافت کا یہ ادارہ بچ جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اور بقول اقبالؒ

چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ غیروں کی عیاری بھی دیکھ

تحریک امارت شرعیہ پاکستان نے لاہور کے ایک ہال میں ۲۷ اگست کو بحالی خلافت سیمینار منعقد کر کے امت مسلمہ کو اس کا ایک بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی کوشش کی ہے جس پر وہ شکریہ کی مستحق ہے۔ عالم اسلام کے مختلف ممالک میں اس عنوان سے بیسیوں گروپ کام کر رہے ہیں جن کا ہدف خلافت اسلامیہ کی بحالی کے لیے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کرنا ہے اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کی توجہات اس طرف مبذول کرانا ہے۔ اسی مقصد کو سامنے رکھ کر لاہور کے مولانا محمد نعیم اللہ فاروقی، مولانا خورشید احمد گنگوہی، مولانا ڈاکٹر عبد الواحد قریشی، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور ان کے رفقاء نے تحریک امارت شرعیہ کے نام سے ذہن سازی کا کام شروع کیا ہے اور انہی نے مذکورہ بالا سیمینار کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی جمعیۃ علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق تھے اور اس میں مولانا خورشید احمد گنگوہی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا محمد اسلم تھانوی اور چودھری رحمت علی کے علاوہ جماعت الدعوہ کے رہنما مولانا حافظ عبد الرحمان مکی اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ راقم الحروف نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ خلافت سیمینار کے انعقاد پر تحریک امارت شرعیہ مبارکباد کی مستحق ہے کہ یہ ایک بھولا ہوا سبق ہے جو اس نے ہمیں یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ خلافت کے بارے میں دو حوالوں سے کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک اس کی شرعی اور دینی حیثیت کے بارے میں اور دوسرا موجودہ حالات کے تناظر میں اس کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے۔

جہاں تک شرعی پہلو کا تعلق ہے خلافت ہمارے دینی فرائض میں سے ہے اور شریعت اسلامیہ کے ناگزیر تقاضوں میں سے ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ خلافت کا قیام دینی واجبات میں سے ہے اور فرض کفایہ ہے۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں خلافت موجود ہے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر خلافت کہیں بھی قائم نہیں ہے تو دنیا کے سارے مسلمان اس فریضہ کے تارک اور گناہگار کہلائیں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس پر دو دلیلیں دی ہیں:

  1. ایک یہ کہ قرآن کریم کے بہت سے احکام پر عملدرآمد خلافت کے نظام پر موقوف ہے مثلاً حدود کا نفاذ، جہاد، نماز و زکوٰۃ کے باقاعدہ نظام کا قیام اور بیت المال کا معاشرتی کردار۔ یہ سب امور حکومت کے فرائض میں سے ہیں اور ان پر عمل کے لیے حکومت کا وجود ضروری ہے۔ جبکہ شرعی اصول یہ ہے کہ جس کام پر کسی شرعی فرض کی ادائیگی موقوف ہو وہ خودبخود فرض ہو جاتا ہے۔ اس لیے خلافت کا قیام بھی شرعی فریضہ ہے اور دینی تقاضوں میں سے ہے۔
  2. دوسری دلیل حضرت شاہ صاحبؒ نے یہ دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ نے سب سے پہلے جس کام پر اتفاق کیا وہ خلافت کا قیام اور خلیفہ کا انتخاب تھا، حتٰی کہ اسے جناب نبی اکرمؐ کی تدفین سے بھی پہلے سرانجام دیا گیا۔ اس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے اس لیے خلافت کا قیام ایک شرعی فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو آج دنیا میں کسی جگہ بھی خلافت کا ادارہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے پوری امت اور ہم سب لوگ ایک شرعی فریضہ کے تارک اور گناہگار ہیں اور ہمیں اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے اجتماعی گناہ کے اس دائرہ سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

آج کے عالمی حالات کے تناظر میں دو پہلوؤں سے اس مسئلہ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ پون صدی کے تجربہ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ عالم اسلام کے مسائل اور مشکلات پر عالمی سطح پر آواز اٹھانے کے لیے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کوئی فورم باقی نہیں رہا۔ مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں، مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بحرانوں کا دائرہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے مگر بین الاقوامی سطح پر ان مسائل پر بات کرنے والا اور مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا کوئی فورم نہیں ہے۔ اور اب خلافت کی قدر و قیمت کا احساس ہو رہا ہے کہ اپنے آخری دور میں خلافت عثمانیہ جیسی کیسی بھی تھی مسلمانوں کے مسائل پر عالمی ماحول میں آواز اٹھانے والا کوئی فورم تو موجود تھا اور ان کی نمائندگی تو ہو جاتی تھی۔ اب لے دے کر اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم ہے اور او آئی سی کا فورم ہے لیکن وہ اس قدر بے جان اور بے وزن ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یہ ساٹھ کے لگ بھگ ایسے زیرو ہیں جن کے ساتھ کوئی عدد نہیں ہے اور وہ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کی بجائے ان کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کے دور میں خلافت ہماری ملی ضرورت ہے اور پون صدی کے تلخ تجربے نے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ خلافت ہی ایک ایسا ادارہ اور فورم ہے جو عالم اسلام کے مسائل پر بین الاقوامی سطح پر مؤثر آواز اٹھا سکتا ہے اور مسلمانوں کی مؤثر نمائندگی کر سکتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے مختلف مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کے تجربات کیے جا رہے ہیں اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس میں کامیابی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ خود ہم پاکستان میں ساٹھ برس سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری قائم ہو اور ملک میں رائج غیر اسلامی قوانین سے نجات حاصل کی جائے۔ اس کے لیے دستور میں ضمانت دی گئی ہے اور ہماری حکومت اس عزم کا اعلان بھی کرتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ملک کا نظام چلائے گی۔ لیکن تمام تر دستوری ضمانتوں اور حکومتی اعلانات کے باوجود ہم ابھی تک زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں بلکہ اس سے بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

  • اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اسلامی قوانین کا نفاذ نوآبادیاتی نظام کے فریم ورک میں کرنا چاہ رہے ہیں اور ایسا ہونا عملاً ممکن نہیں ہے۔ ہمارا انتظامی، عدالتی، معاشرتی اور معاشی ڈھانچہ نوآبادیاتی ہے اور اس میں ہم اسلام کی پیوند کاری کر رہے ہیں جس میں ہمیں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ اس لیے کہ اسلامی قوانین کے لیے عدالتی اور انتظامی ڈھانچہ بھی اسلامی ہونا چاہیے اور معاشی و معاشرتی ماحول بھی اسلامی تقاضوں کو قبول کرنے والا ہونا چاہیے جو موجودہ برطانوی نوآبادیاتی ڈھانچہ کی موجودگی میں نہیں ہو سکتا۔ قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ اور اسلامی احکام و ضوابط کی عملداری کے لیے مناسب انتظامی، معاشرتی، معاشی اور عدالتی ڈھانچہ خلافت کے ادارے کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔
  • اور اس کے ساتھ ساتھ اس نفاذ کی ذمہ داری قبول کرنے والے رجال کار بھی اسلامی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور ہونا ضروری ہیں مگر ہم ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھے ملک میں نفاذ اسلام کے ناکام تجربہ میں مسلسل مصروف ہیں۔

جس انتظامی و عدالتی ڈھانچے اور جس قسم کے رجال کار کے ذریعے ہم نفاذ اسلام کی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔ اس پر مجھے امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ کا ایک ارشاد یاد آرہا ہے جو میں نے مولانا مفتی عبد الواحدؒ آف گوجرانوالہ سے سنا تھا کہ حضرت جی نے ڈھاکہ میں علماء کرام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں سے تم اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہو، اول تو وہ ایسا کریں گے نہیں اور اگر کبھی عوام کے دباؤ یا تمہارے مطالبے پر ایسا کرنا شروع کیا تو تم خود ہاتھ جوڑو گے کہ نہیں بھئی یہ اسلام ہمیں نہیں چاہیے۔ مولانا محمد یوسف دہلویؒ نے فرمایا کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی جنبی پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ نماز پڑھائے اور کسی ایسے شخص کو جس پر غسل واجب ہے نماز پڑھانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اول تو وہ ایسا کرے گا نہیں اور اگر مجبور کرنے سے وہ مصلّٰی پر کھڑا ہوگیا اور نماز پڑھا دی تو کسی کی نماز نہیں ہوگی۔

بین الاقوامی سطح پر عالم اسلام کے مسائل کے بارے میں آواز اٹھانے والے کسی ادارے کا موجود نہ ہونا اور خلافت کے بغیر مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کے تجربہ کی ناکامی ہمیں یاد دلا رہی ہے کہ ہماری اصل منزل خلافت ہے اور ملت اسلامیہ کے مسائل و مشکلات کا حل خلافت کے قیام میں ہی ممکن ہے۔ اس لیے ایسی تمام کوششیں مبارکباد اور حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں جو خلافت کے تصور کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور اس کے لیے ماحول بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں، ان سے تعاون بھی کرنا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۴ ستمبر ۲۰۰۶ء)
2016ء سے
Flag Counter