جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسلام کے طرزِ حکمرانی کی بات مختصراً دو کالموں میں ہو چکی ہے۔ آج کے کالم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت کے چند واقعات درج کیے جا رہے ہیں، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کا حکمرانی کا مزاج کیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے خلیفۂ دوم کی حیثیت سے زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد صوبوں کے گورنروں اور دیگر عمّال کو جو ہدایات جاری کیں ان میں یہ بات بطور خاص فرمائی کہ کوئی شخص ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہو گا، باریک لباس نہیں پہنے گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا، اور اپنے مکان کے دروازے پر ڈیوڑھی نما چھتہ نہیں بنائے گا۔
ان ہدایات کی وجہ اور ان کا فلسفہ کیا تھا؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان سے تجزیوں کے مطالعہ سے جو بات مشترک طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ امور اس دور میں سہولت اور امتیاز کی علامت سمجھے جاتے تھے اور حضرت عمرؓ کسی صورت میں نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گورنر اور سرکاری عملہ کے دوسرے لوگ اپنی بودوباش، خوراک اور سواری کے لحاظ سے آبادی کے عام لوگوں سے الگ کوئی امتیازی حیثیت اختیار کریں اور اپنی معاشرت میں دوسرے شہریوں سے ممتاز نظر آئیں۔ ان ہدایات پر عملدرآمد کے بارے میں حضرت عمرؓ اس قدر حساس تھے کہ ایک صوبہ کے حاکم عیاض بن غنمؓ کے بارے میں شکایت ملی کہ باریک لباس پہننے لگے ہیں تو واپس طلب کر کے کچھ ماہ تک بیت المال کی بکریاں چرانے کی ڈیوٹی لگا دی، جو بطور سزا تھی اور سزا مکمل ہونے کے بعد پھر انہیں اسی صوبے کا حاکم بنا کر واپس بھیج دیا۔
حضرت عمرؓ نے ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے دیکھا تو بلا کر وجہ دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ مجھے غیر مسلم کی حیثیت سے بیت المال کو جزیہ دینا پڑتا ہے اور میں کمانے کے قابل نہیں ہوں اس لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوں۔ اس واقعہ نے حضرت عمرؓ کو اس قدر متاثر کیا کہ باقاعدہ ہدایات جاری کر دیں کہ جو غیر مسلم کمانے اور محنت مزدوری کرنے کے قابل نہ رہ گیا ہو اس سے جزیہ وصول نہ کیا جائے۔
حضرت عمرؓ مسجد نبوی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، ابھی لوگوں سے خطاب شروع کیا تھا کہ ایک شخص درمیان سے اٹھ کھڑا ہوا اور پکار اٹھا ہم آپ کی بات نہ سنتے ہیں اور نہ مانتے ہیں ۔ پوچھا وجہ کیا ہے؟ تو کہنے لگا کہ بیت المال سے گزشتہ روز جو کپڑا تقسیم ہوا تھا اور آپ کو اور ہم سب کو برابر برابر ملا تھا، میرا اس سے کرتہ نہیں بن سکا اور آپ قد لمبا ہونے کے باوجود اس کپڑے کا کرتہ پہنے کھڑے ہیں۔ پہلے یہ بتائیں کہ زائد کپڑا کہاں سے آیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت عمرؓ کے بیٹے کو کھڑے ہو کر بتانا پڑا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا بھی ابا محترم کو دے دیا تھا اور اس طرح ان کا کرتہ بن سکا ہے۔
عوامی احتساب کا یہ تصور کہ بھرے اجتماع میں ایک شخص امیر المومنین کو روکے کھڑا ہے اور امیر المومنین اس کے سوال کا تسلی بخش جواب دیے بغیر اپنا خطبہ جاری رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہی آزادئ رائے اور عوامی احتساب کا وہ روشن اصول ہے جو حضرت عمرؓ کے طرزِ حکمرانی میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت عمرؓ کے پاس کہیں سے پاؤڈر کی طرح کی خوشبو آئی جو عورتوں کے کام کی تھی۔ اسے عورتوں میں تقسیم کرنے کے لیے اپنی اہلیہ سے کہا اور ساتھ ہی پوچھ لیا کہ تقسیم کیسے کرو گی؟ جواب دیا کہ عورتوں کو جمع کر کے ان میں برابر برابر بانٹ دوں گی۔ پوچھا اپنا حصہ کتنا رکھو گی؟ جواب دیا کہ جتنا حصہ باقی عورتوں کو دوں گی اتنا اپنے لیے بھی رکھ لوں گی۔ امیر المومنینؓ نے فرمایا کہ اپنا حصہ بھی برابر رکھو گی تو جو خوشبو تقسیم کرتے ہوئے ہاتھوں کو لگ جائے گی وہ کس حساب میں جائے گی؟ ایسا کرنا کہ اپنا حصہ تھوڑا رکھنا تاکہ حساب برابر ہو جائے۔
یہ ہے حکمرانی کا وہ طرز اور انصاف کا وہ معیار جس نے حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت کو عدل و انصاف کی تاریخ کا ایک روشن باب بنا دیا اور وہ قیامت تک انسانیت کے لیے مشعل راہ رہے گا۔