اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے جس کے قیام کی گنجائش ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس مقصد کے لیے رکھی گئی تھی کہ پاکستان میں مروجہ قوانین کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لے کر خلافِ اسلام قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے اور قانون سازی کے اسلامی تقاضوں کے سلسلہ میں قانون ساز اداروں کی راہنمائی کی جائے۔ ۱۹۷۳ء میں دستور کے نفاذ کے موقع پر اس مقصد کے لیے سات سال کی مدت طے کی گئی تھی لیکن ۱۹۷۷ء تک کونسل نے اس سمت کوئی پیشرفت نہ کی تو جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنے دورِ اقتدار میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو کر کے اسے نہ صرف متحرک بنایا بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل ہی کی سفارشات کی بنیاد پر حدود آرڈیننس اور دیگر اسلامی قوانین کے نفاذ کا آغاز کیا۔
اس دور میں نافذ ہونے والے اسلامی قوانین کے نامکمل ہونے اور عملدرآمد کا پہلو خاصا کمزور ہونے کے بارے میں دینی حلقے مسلسل آواز اٹھاتے رہے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ چند اسلامی قوانین جس حد تک بھی نافذ ہوئے وہ تمام مکاتب فکر کے سربرآوردہ علماء کرام کی مشاورت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی بنیاد پر تھے اور اصولی اور شرعی لحاظ سے درست تھے۔ ہماری معلومات کے مطابق اس دور میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی قانون سازی کے حوالے سے ۸۰ فیصد کام مکمل کر کے قوانین کے مسودات مرتب کر دیے تھے جو نفاذ و عملدرآمد کے لیے حکمرانوں کی میز پر تیار پڑے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حکمرانوں کو اسلام کے نفاذ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ ان کی پالیسیوں کا رخ یہ نظر آرہا ہے کہ اسلام کی جدید تعبیر و تشریح اور نام نہاد اجتہاد کے نام پر مغربی افکار و نظریات کو اسلام کے لیبل کے ساتھ مسلط کر دیا جائے، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کا ٹھوس علمی و فکری کام ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو کر کے اس میں درباری قسم کے نام نہاد علماء اور ملحدین کو شامل کر دیا گیا ہے اور نئی کونسل کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکمران پارٹی کی سربراہ بیگم بے نظیر بھٹو نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدایت کی ہے کہ وہ حدود آرڈیننس اور دیگر اسلامی قوانین پر نظرثانی کرے اور انہیں اجتہاد کے نام پر حکمران پارٹی کے مزعومہ رجحانات اور تقاضوں کے مطابق ڈھالے۔
ہمارے نزدیک اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ رجعت قہقری نہ صرف قانون سازی کے اسلامی تقاضوں سے متصادم ہے بلکہ اجتہاد اور تعبیر جدید کے نام پر ملک کو الحاد کی آماجگاہ بنانے کی بھی ایک کوشش ہے جس کا علمی و دینی حلقوں کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔