دستوری ترامیم: دینی حلقوں کی کامیاب جدوجہد

   
یکم اپریل ۲۰۱۰ء

یکم اپریل جمعرات کو چیچہ وطنی کی مرکزی جامع مسجد میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام شہدائے ختم نبوت کی یاد میں ختم نبوت کانفرنس تھی جس کی صدارت امیر احرار پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری نے کی اور خانقاہ سراجیہ کندیاں کے مولانا صاحبزادہ رشید احمد مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ جبکہ ۴ اپریل کو سیالکوٹ کے واپڈا گراؤنڈ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا جس کی صدارت خانقاہ سراجیہ کے مولانا صاحبزادہ عزیز احمد نے کی اور مقررین میں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے امیر پروفیسر سینیٹر ساجد میر اور دیگر سرکردہ علمائے کرام کے علاوہ تحریک منہاج القرآن کے راہنما رضوان احمد قاضی بھی شامل تھے۔ مجھے دونوں کانفرنسوں میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ہم پاکستان میں نفاذِ اسلام، عقیدۂ ختم نبوت، ناموس رسالتؐ اور دیگر حوالوں سے شروع سے ہی بین الاقوامی سازشوں اور دباؤ کا شکار ہیں اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہتا نظر آتا ہے لیکن اس عالمی دباؤ کی ایک لہر سے ہم ابھی سرخرو نکلے ہیں اور میں اس پر سب حضرات کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔

گزشتہ دو سال سے دستور پاکستان میں ضروری ترامیم کے حوالہ سے پارلیمنٹ کی کمیٹی کام کر رہی ہے اور اس کے سامنے ملکی اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے بہت سے ایسے مطالبات پیش کیے جاتے رہے ہیں جن پر ہمیں تشویش تھی۔ ان مطالبات اور تجاویز کی زد میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام تھا، قراردادِ مقاصد تھی، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے قوانین تھے، تحفظ ناموس رسالت کی دفعات تھیں، وفاقی شرعی عدالت اور دیگر اسلامی دفعات تھیں۔ جس سطح پر اور جس انداز سے یہ مطالبات کیے جا رہے تھے اس سے دینی حلقوں کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا مگر یہ بات خوشی اور اطمینان کی ہے کہ آئینی ترامیم کے بارے میں تجاویز کا جو پیکج آیا ہے اس میں اس قسم کے تمام مطالبات کو مسترد کر دیا گیا ہے اور دستوری اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی نے ایسی تجاویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے لیکن میں بطور خاص تین طبقات کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔

  1. پارلیمنٹ میں دینی حلقوں کی نمائندگی اس وقت مولانا فضل الرحمان اور ان کے رفقاء، پروفیسر ساجد میر، پروفیسر خورشید احمد اور صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی کر رہے ہیں۔ انہوں نے آئین کی اسلامی دفعات کے تحفظ میں جو کردار ادا کیا ہے اس پر یہ حضرات ہم سب کی طرف سے شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں۔
  2. آئینی کمیٹی کے تمام ارکان خواہ وہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، پاکستان مسلم لیگ سے ان کا تعلق ہو یا وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ہوں، اسلامی دفعات کے خلاف پیش کی جانے والی تجاویز کو مسترد کرنے کے فیصلے پر سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
  3. اور تیسرے نمبر پر ان دینی جماعتوں کو مبارکباد دوں گا جنہوں نے اس دوران عوامی بیداری اور رائے عامہ کے محاذ کو گرم رکھا ہے۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ملک بھر میں ختم نبوت کانفرنسیں منعقد کیں، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ متحرک رہی، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث نے مختلف شہروں میں ختم نبوت کانفرنسوں کا اہتمام کیا، جمعیۃ علماء پاکستان (نورانی) نے اس عنوان سے اجتماعات منعقد کیے اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس حوالہ سے جس دینی جماعت نے جس درجہ میں بھی رائے عامہ کو بیدار کرنے اور عوامی احتجاجی مہم کو آگے بڑھانے میں کردار کیا وہ سب کی سب مبارکباد کی مستحق ہیں۔ لیکن میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دستور کی اسلامی دفعات اور پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف عالمی دباؤ کی یہ ایک لہر تھی جس کے مقابلہ میں ہم بحمد اللہ تعالٰی سرخرو ہوئے ہیں، مگر یہ دباؤ آئندہ بھی جاری رہے گا اور مختلف روپ اختیار کرے گا جس سے ہر وقت بیدار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

دوسری گزارش میں اس موقع پر وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی کے ساتھ قادیانی وفد کی ملاقات کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں جس کی خبریں چند روز سے اخبارات میں مسلسل آرہی ہیں۔ صاحبزادہ حامد سعید کاظمی ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، تحریک ختم نبوت میں اس خاندان کا کردار رہا ہے، وہ پارلیمنٹ میں دینی حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایک بڑے دینی مسلک کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مجھے قادیانی وفد کی ان کے ساتھ ملاقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ مذہبی امور کے وفاقی وزیر ہیں اور ملک کا کوئی بھی شہری اور کسی بھی مذہبی گروہ کا وفد ان سے ملاقات کر سکتا ہے اس لیے اس ملاقات پر اعتراض کو میں درست نہیں سمجھتا۔ البتہ مجھے ایک شکوہ ضرور ہے کہ یہ ملاقات خفیہ نہیں بلکہ آن دی ریکارڈ ہونی چاہیے تھی اور صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی صاحب کو اس سلسلہ میں رائے عامہ کو اور خاص طور پر دینی حلقوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ اس ملاقات کا کئی ماہ تک پردۂ اخفا میں رہنا اور دھیرے دھیرے اس کی تفصیلات کا منظر عام پر آنا بہرحال شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اور میں اس پر وفاقی وزیر مذہبی امور سے شکوہ کا حق رکھتا ہوں۔

دوسری بات اس ملاقات کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قادیانیوں نے اس ملاقات میں شکایت کی ہے کہ ان کے خلاف قوانین کا غلط اور بے جا استعمال ہو رہا ہے۔ یہ بات اس طرح نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح رخ یہ ہے کہ قادیانیوں نے اپنے بارے میں پارلیمنٹ کے ۱۹۷۴ء کے متفقہ فیصلے اور ملکی قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو نہیں مان رہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، ملک بھر کے بلکہ دنیا بھر کے تمام علماء اسلام کے متفقہ فیصلے کو قبول کرنے کی بجائے اسے مسلسل چیلنج کر رہے ہیں، اور ۱۹۷۴ء کے بعد سے اب تک بین الاقوامی حلقوں میں پاکستان کے خلاف مورچہ زن ہیں۔ ملک کی دیگر اقلیتیں مثلاً مسیحی، ہندو اور سکھ وغیرہ مذہبی قوانین کے مبینہ طور پر غلط استعمال کی شکایت کریں تو ان سے بات ہو سکتی ہے لیکن قادیانیوں کو اس وقت تک ایسی شکایت کا حق نہیں ہے جب تک وہ دستور میں اپنے لیے طے شدہ پوزیشن کو قبول نہیں کرتے اور ملک کے دستور و قانون کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کرتے۔

قانون پر عملدرآمد یا اس کا صحیح یا غلط استعمال الگ مسئلہ ہے اور کسی قانون یا دستوری دفعہ کو سرے سے تسلیم کرنے سے انکار کرنا اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ یہ بغاوت کا کیس ہے، دستور و قانون سے انحراف کا کیس ہے اور بغاوت کے معاملات کو کہیں بھی نارمل انداز میں ڈیل نہیں کیا جاتا۔ قادیانی حضرات اگر دستور و قانون کو تسلیم کرتے ہوئے کسی قانون کے غلط استعمال کی شکایت کرتے ہیں تو ان کی ہر شکایت سنی جا سکتی ہے اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں ان کے بارے میں ثابت ہونے والی کسی بھی زیادتی کے خلاف خود ہم آواز اٹھائیں گے، لیکن اس سے پہلے وہ دستور و قانون کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں اور پوری قوم بلکہ امت مسلمہ کو چیلنج کرنے کا طرز عمل ترک کریں، اس کے بغیر اس سلسلہ میں کوئی بات بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

ان گزارشات کے ساتھ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو تحریک ختم نبوت کا عوامی محاذ مسلسل گرم رکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس میں صحیح اور مؤثر کردار ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۶ اپریل ۲۰۱۰ء)
2016ء سے
Flag Counter