جب سے ہم نے اپنے اکابر سے نئی نسل کو متعارف کرانا بلکہ خود ان کی زندگیوں، جدوجہد اور دائرہ کار سے واقفیت حاصل کرنا چھوڑ رکھا ہے ’’اکابر‘‘ کا مفہوم ہی بدلتا جا رہا ہے۔ ہم نے دیوبندیت کے اپنے اپنے دائرے قائم کر رکھے ہیں اور ہر دائرے کے اکابر الگ ہیں۔ پرانے اکابر جو ہمارے اصل اکابر ہیں ان کا مصرف ہمارے ہاں صرف یہ رہ گیا ہے کہ اپنے اپنے طے کردہ دیوبندیت کے دائروں میں ان کا کوئی ارشاد یا عمل ہمیں اپنے مطلب کا مل جاتا ہے تو اپنی ترجیحات کی تائید میں اسے استعمال کر لیا جائے، اس سے زیادہ اکابر کا مفہوم اور مصرف اور کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے خانوادہ اور اکابر علماء دیوبند کے دائرہ ہائے کار میں جو وسعت اور تنوع تھا اور فکر و نظر میں فراست و حکمت کی جو بلندی تھی وہ تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہمارے پاس اس کا مطالعہ کرنے کی فرصت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے استفادہ اور راہنمائی حاصل کرنے کا حوصلہ ہے۔
اس فضا میں کچھ اصحابِ فکر کا اس مقصد کے لیے جمع ہونا میرے نزدیک بہت غنیمت ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جدوجہد، تعلیمات اور مشن سے نئی نسل کو متعارف کرانے کے لیے محنت کی جائے اور آج کے عالمی حالات کے تناظر میں شیخ الہندؒ کے افکار و نظریات اور ان کی جدوجہد کے اہداف و مقاصد سے ملتِ اسلامیہ کو واقف کرایا جائے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ فکری اور نظریاتی طور پر مسلسل لڑھکتے چلے جانے کے عمل میں کہیں رک جانے کے لیے ہمیں کوئی رکاوٹ دکھائی دینے لگی ہے اور اس مقصد کے لیے شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے زیادہ مضبوط رکاوٹ اور کونسی ہو سکتی ہے؟ جمعیۃ طلباء اسلام کے سابق صدر حافظ نصیر احمد احرار نے گزشتہ دنوں جب یہ بتایا کہ کچھ اصحاب فکر و نظر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ پر کام کرنے کے لیے باہمی رابطے بڑھا رہے ہیں اور ’’شیخ الہند اکادمی‘‘ کے نام سے لاہور میں ایک فورم قائم کیا جا رہا ہے تو میری خوشی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میں اس قافلہ میں شامل ہونا پسند کروں گا؟ میرے پاس انکار کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی کہ اس کام کو میں آج کے دور کی سب سے بڑی فکری ضرورت تصور کرتا ہوں۔
چنانچہ گزشتہ روز حضرت مولانا محب النبی کے ادارہ دارالعلوم عثمانیہ (رسول پارک، اچھرہ، لاہور) میں اس سلسلہ میں چند دوستوں کا ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں راقم الحروف نے بھی پاکستان شریعت کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کے ہمراہ شرکت کی۔ مولانا محب النبی کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے سابق مدیر جناب اکرام القادری اور ہفت روزہ نقیب ملت راولپنڈی کے مدیر مولانا محبوب الرحمان قریشی بھی چند دیگر فاضل دوستوں کے ہمراہ موجود تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ پشاور سے ڈاکٹر قبلہ ایاز، بنوں سے مولانا قاری محمد عبد اللہ، ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری اور کراچی سے جناب محمد فاروق قریشی بھی اس مشاورت کا مسلسل حصہ ہیں مگر کسی وجہ سے آج کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔
حافظ نصیر احمد احرار اس اجلاس کے میزبان تھے اور وہی اس مشاورت کو کنڈکٹ بھی کر رہے تھے ، اجلاس میں طے پایا کہ یہ کام ’’شیخ الہند اکادمی‘‘ کے عنوان سے کیا جائے گا، دارالعلوم عثمانیہ اس کا ہیڈکوارٹر ہوگا اور حافظ نصیر احمد اس کے کنوینر ہوں گے۔ عملی پروگرام یہ تجویز ہوا کہ:
- آج کے عالمی حالات کے تناظر میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی ملی جدوجہد اور ان کے افکار و تعلیمات کے ازسرنو مطالعہ اور ان سے راہنمائی حاصل کرنے کا ذوق بیدار کیا جائے گا۔
- ۱۴۳۳ھ پورے ملک میں حضرت شیخ الہند کے سال کے طور پر منایا جائے گا کہ اب سے ایک صدی قبل ۱۳۳۳ھ میں حضرت شیخ الہند کو مکہ مکرمہ سے گرفتار کیا گیا تھا اور قاہرہ میں ان پر مقدمہ چلا کر جزیرہ مالٹا میں انہیں ان کے رفقاء سمیت نظربند کر دیا گیا تھا۔
- سال کے آغاز میں قومی سطح پر اور اختتامِ سال پر بین الاقوامی سطح پر ’’شیخ الہند سیمینار‘‘ کا انعقاد کیا جائے گا اور اس دوران ملک بھر میں اس حوالہ سے اجتماعات، سیمینارز، مجالس مذاکرہ، ضروری لٹریچر کی تیاری اور اس کی طباعت اور تقسیم کا اہتمام کیا جائے گا۔
- محرم الحرام ۱۴۳۳ھ کے دوران منعقد ہونے والے ’’قومی شیخ الہند سیمینار‘‘ کی تیاری کے لیے اگلے چند ماہ میں لاہور، گوجرانوالہ، کراچی، پشاور، مانسہرہ، کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں علاقائی سطح پر سیمینار منعقد کیے جائیں گے، پورے ملک میں رابطہ مہم چلائی جائے گی اور بطور خاص یونیورسٹیوں اور کالجوں تک اس محنت کو بڑھایا جائے گا۔
- تحریک شیخ الہند کا برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹ میں ’’ریشمی خطوط سازش کیس‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور حضرت مولانا سید محمد میاںؒ نے ان رپورٹوں کا ایک جامع مجموعہ ’’تحریک شیخ الہند‘‘ کے نام سے مرتب کیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔ جبکہ اس بین الاقوامی تحریک کے ایک اہم کردار ملک جرمنی کی سی آئی ڈی کی رپورٹوں میں اسے ’’برلن پلان‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ، کابل، ماسکو اور استنبول بھی اس تحریک کے اہم مراکز رہے ہیں۔ ان مراکز سے اس تحریک کے بارے میں مستند معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور انہیں قوم کے سامنے لایا جائے گا۔
- دیوبندیت کے مختلف اور متفرق بلکہ منتشر فکری حلقوں کو شیخ الہند کی فکری قیادت کے زیر سایہ مجتمع کرنے اور ایک دوسرے کے قریب لانے کی محنت کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔
اڑھائی تین گھنٹے کی اس مشاورت کے بعد جب میں وہاں سے اٹھا تو دوستوں کے سامنے میرا تبصرہ یہ تھا کہ آج ہماری بیٹریاں پھر سے چارج ہوگئی ہیں جبکہ میں خود کو ذہنی طور پر ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا اور مستقبل میں امام ولی اللہ دہلویؒ کے قافلہ کی جدوجہد کو صحیح ٹریک پر لانے کے امکانات دکھائی دینا شروع ہوگئے تھے۔
میں نے متعدد بار یہ کہا ہے کہ دینی، سیاسی اور فکری جدوجہد کے حوالے سے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ میری آئیڈیل شخصیت ہیں۔ میں نے خود کو ہمیشہ تحریک شیخ الہند کا ایک کارکن سمجھا ہے اور اسی کو دنیا و آخرت میں کامیابی اور نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ۱۸۶۶ء کے دوران دیوبند کے قصبہ میں قائم کیے جانے والے دینی مدرسہ کے پہلے طالب علم تھے اور وہی اس بابرکت درخت کا پہلا ثمر ہیں۔ میں اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ دیوبندیت کو اگر کسی شخصیت کے حوالے سے متعارف کرانا ہو تو اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں شخصیت شیخ الہندؒ کی ہے اور تاریخ کے ایک شعوری طالب علم کی حیثیت سے مجھے دیوبندیت کے شخصی تعارف کے لیے ان سے بہتر کوئی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ انہوں نے دیوبند کی مسجد چھتہ کی اس دینی درسگاہ میں اس وقت تعلیم حاصل کی جب وہ مدرسہ عربیہ کہلاتا تھا اور پھر اسی مدرسہ میں، جب وہ دارالعلوم کا عنوان اختیار کر چکا تھا، سالہاسال تک تدریس اور صدارتِ تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ ان کی علمی عظمت کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے تلامذہ میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، مناظر اسلام حضرت مولانا مرتضٰی حسن چاند پوری،امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی، مفکر اسلام حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہم اللہ تعالٰی جیسے اساطینِ علم و فضل کے نام شمار ہوتے ہیں۔ اور ان کی فکری و سیاسی بلندقامتی کا منظر یہ ہے کہ مذکورہ بالا بہت سے اکابر کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم محمد اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری جیسے مسلمہ ملی راہنما ان کے خوشہ چینوں کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ دیوبند کا صرف ثمرہ اور علامت ہی نہیں بلکہ قافلہ ولی اللّٰہی اور قافلہ دیوبند کی آبرو بھی تھے۔ اگر ہم آبرومندانہ مستقبل کے لیے اپنی اس تاریخی آبرو کے زیرسایہ واپس جانے کو تیار ہیں تو اس سے زیادہ نیک بختی اور سعادت کی بات اور کونسی ہو سکتی ہے؟