اسلامی انقلاب اور بے نظیر بھٹو

   
ستمبر ۱۹۹۶ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۶ اگست ۱۹۹۶ء کے مطابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اسلام آباد میں سینیٹر اعتزاز احسن کی کتاب ’’دی انڈس ساگا اینڈ دی میکنگ آف پاکستان‘‘ کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’مہذب معاشرہ کو ایک مخصوص طبقے نے کھوکھلا کر دیا ہے اور آج بھی وہ نام نہاد اسلامی انقلاب کے نام پر پروپیگنڈے کے ذریعے جمہوری ڈھانچے کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔‘‘

محترمہ بے نظیر بھٹو اس سے قبل بھی کئی مواقع پر اس قسم کے خیالات کا اظہار کر چکی ہیں اور اپنے اس نقطۂ نظر کے اظہار کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی بات کرنے والے لوگ جس قسم کا نظام لانے کی تگ و دو کر رہے ہیں وہ نظام اگر آ گیا تو موجودہ جمہوری ڈھانچہ تباہ ہو جائے گا اور معاشرہ تہذیب و ثقافت کی بجائے جہالت کے دور کی طرف واپس چلا جائے گا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے ان خیالات کو اسلام اور مغربی ثقافت کے درمیان عالمی کشمکش کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی اس پوزیشن کو سمجھنے میں زیادہ دقت محسوس نہیں ہوتی کہ وہ ایک بڑے مسلم ملک کی وزارتِ عظمٰی کے منصب پر فائز ہو کر مغربی ثقافت اور نظریات کی کامیابی کے ساتھ وکالت کر رہی ہیں، اور اس پر انہیں مغربی میڈیا اور لابیوں کے ہاں مطلوبہ پذیرائی بھی حاصل ہے۔ لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک کے حکمران کے منہ سے اس قسم کی باتیں بہرحال ایک المیہ سے کم نہیں اور یہ ملک کے دینی و سیاسی حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

اس حوالہ سے ہم محترمہ بے نظیر بھٹو سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ جہاں تک موجودہ ڈھانچے کا تعلق ہے اور جسے وہ جمہوریہ ڈھانچہ قرار دے رہی ہیں، وہ جاگیرداری، ناانصافی، کرپشن، نااہلیت، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ کا ڈھانچہ ہے، اور اسلامی انقلاب اس ڈھانچے کو ختم کر کے اس کی جگہ عدل و انصاف اور امن و مساوات کے فطری نظام کو نافذ کرنے سے ہی مکمل ہو گا۔ یہ ڈھانچہ ختم ہو جانا چاہیے اور اسے ختم کرنے میں ہی سب کا بھلا ہے، اس ظالمانہ نظام پر جمہوری اور مہذب کا لیبل چسپاں کر کے اس کے دفاع کی کوشش اپنے ملک کے عوام اور انسانی اقدار دونوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter