اخباری اطلاعات کے مطابق گورنر سرحد سید افتخار حسین شاہ نے سرحد اسمبلی کے متفقہ طور پر منظور کردہ ’’شریعت ایکٹ‘‘ پر ابھی تک دستخط نہیں کیے جبکہ سرحد کابینہ کے تجویز کردہ ’’حسبہ ایکٹ‘‘ کو اس اعتراض کے ساتھ واپس بھجوا دیا ہے کہ اس میں عدالتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور آئینی حدود سے تجاوز کیا گیا ہے۔ سرحد اسمبلی نے شریعت ایکٹ ۷ جون ۲۰۰۳ء کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا اور اس میں اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اسمبلی کے اقلیتی ارکان نے بھی شریعت ایکٹ کی حمایت کی تھی، اس ایکٹ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا کہ ملک کے دستور کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور اس ایکٹ کی کسی شق کا اطلاق اقلیتوں کے شخصی اور مذہبی قوانین پر نہیں ہوگا۔ جبکہ حسبہ ایکٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ صوبہ میں ایک محتسب مقرر کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ایک پورا نظام قائم کیا جائے گا جس کے تحت محتسب صوبے میں اسلامی اقدار اور معروفات کے فروغ اور منکرات کے سدباب کے لیے اقدامات کرے گا، اس سلسلہ میں محتسب کے لیے عدالتی اور انتظامی اختیارات بھی تجویز کیے گئے ہیں جو اس مقصد کے لیے ضروری ہیں۔
اپنے دائرہ کار میں معروفات کا فروغ اور منکرات کا سدباب کسی بھی مسلم حکومت کی وہ بنیادی ذمہ داری ہے جو خود قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے اور سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’اہل ایمان کو جب ہم زمین پر اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ کا اہتمام کرتے ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں‘‘۔ قرآن کریم نے کسی بھی مسلم حکومت کے لیے یہ چار بنیادی فرائض بیان کیے ہیں اور سرحد اسمبلی کے حسبہ ایکٹ میں انہی ذمہ داریوں کے حوالہ سے صوبائی سطح پر نظام احتساب قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن گورنر سرحد کا کہنا ہے کہ یہ آئین کے مطابق نہیں ہے حالانکہ دستور میں اس بات کی صراحت کے ساتھ ضمانت دی گئی ہے کہ تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا اور معاشرہ کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ ان کا یہ طرز عمل اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دستوری تقاضوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتا ، اس لیے وہ اس پر نظر ثانی کریں اور نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ترک کر دیں۔