حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید سے پرانی یاد اللہ تھی اور میں ان کا بہت پرانا قاری ہوں۔ جب صدر محمد ایوب خان مرحوم نے معروف اسکالر ڈاکٹر فضل الرحمان کو ادارہ تحقیقات اسلامی کا سربراہ مقرر کیا اور اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحب کے افکار و خیالات منظر عام پر آنا شروع ہوئے تو ملک کے دینی حلقوں میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ڈاکٹر فضل الرحمان لاہور کے ایک بزرگ عالم دین مولانا شہاب الدین مرحوم کے فرزند تھے جو فاضل دیوبند تھے اور چوبرجی کے علاقہ میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان صاحب نے دین و دنیا دونوں کی تعلیم حاصل کی اور اپنی ذہانت و صلاحیت کی بنا پر بہت آگے نکل گئے۔ شکاگو یونیورسٹی ان کی اعلیٰ تعلیم اور پھر عملی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ یہ مستشرقین کے عروج کا دور تھا اور ڈاکٹر صاحب کو واسطہ بھی زیادہ تر انہی سے پیش آیا، اس لیے ان سے متاثر ہونا فطری بات تھی۔
چنانچہ اسلامی تعلیمات پر مستشرقین کے افکار و تربیت کا رنگ چڑھا تو اس سے ڈاکٹر صاحب کی فکری شخصیت تشکیل پائی۔ انہوں نے حکومت پاکستان کے سرکاری ادارہ تحقیقات اسلامی کی سربراہی سنبھالتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ اسلام کے روایتی ڈھانچے اور اسلامی تعلیمات کی اب تک چلی آنے والی اجماعی تعبیر کو رد کرتے ہوئے اسلام کی نئی تعبیر و تشریح کا طبل بجا دیا۔ جس کی ایک چھوٹی سی مثال صرف معاملہ سمجھانے کے لیے یہ ہے کہ ان کے خیال میں نمازیں اصل میں پانچ نہیں بلکہ صرف تین تھیں مگر مولوی صاحبان نے بڑھا کر انہیں پانچ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس قسم کے خیالات سے ملک کے علماء کو اتفاق نہیں تھا اور چونکہ یہ خیالات سرکاری فورم سے پیش کیے جا رہے تھے اس لیے ان کے خلاف احتجاجی انداز میں اظہار خیال شروع ہوا جس نے بڑھتے بڑھتے صدر محمد ایوب خان کے خلاف دینی حلقوں کی عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی اور ملک بھر میں لوگ اس نئے اسلام کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ ان دنوں مدرسہ احیاء العلوم ماموں کانجن ضلع فیصل آباد میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمان کے افکار و خیالات پر ملک کے دینی جرائد میں لکھنا شروع کیا۔ انداز تحقیق علمی اور سنجیدہ تھا اور گرفت مضبوط تھی، اس لیے ان کی تحریروں نے بہت جلد ملک کے دینی حلقوں کی توجہات کو اپنی سمت مبذول کر لیا۔ انہی تحریرات کے حوالہ سے وہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی روشناس نگاہوں میں آئے اور مولانا بنوریؒ کی فرمائش پر ضلع فیصل آباد کے ایک دور افتادہ قصبہ کو خیرباد کہہ کر کراچی جیسے مرکزی شہر کو انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا۔ کچھ عرصہ یہ معمول رہا کہ ہر ماہ کے بیس دن وہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں دینی علوم کی تدریس کی خدمت سر انجام دیتے اور دس دن کراچی میں رہتے۔ پھر بیس دن ملتان دفتر ختم نبوت میں اور دس دن کراچی میں رہنے کا معمول بھی رہا۔ اور اس کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی ہی ان کی مستقل قرارگاہ بن گیا۔
مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے اپنے علمی و دینی جریدہ ماہنامہ بینات کراچی کی ادارت ان کے سپرد کی جو آخر وقت تک ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ جبکہ ہفت روزہ ختم نبوت کراچی کی نگرانی کے ساتھ ساتھ روزنامہ جنگ کے مستقل دینی کالموں کے ذریعہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے سالہا سال تک ان کے افکار و خیالات سے استفادہ کیا اور ان سے رہنمائی حاصل کی۔
مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ بنیادی طور پر ایک مدرس عالم دین تھے جنہوں نے خداداد ذوق اور صلاحیتوں کے باعث اپنی سرگرمیوں کا دائرہ اس قدر وسیع کر لیا تھا کہ آج دینی جدوجہد کا کوئی شعبہ بھی ان کی تگ و تاز سے خالی نظر نہیں آتا۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہو، ناموس صحابہ کرامؓ کا دفاع ہو، دینی مدارس کی سرپرستی ہو، تعلیم و تدریس کا میدان ہو، اصلاح و سلوک کی روحانی جولانگاہ ہو، جہادی تحریکات کی حوصلہ افزائی ہو، دینی تحریکات کی پشت پناہی ہو، یا عام مسلمانوں کی دینی رہنمائی ہو، کسی محاذ پر بھی وہ اپنے معاصرین سے پیچھے نہیں تھے۔ اور ہر مقام پر وہ پورے امتیاز اور اختصاص کے ساتھ صف اول میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
مگر میرے نزدیک ان کا سب سے بڑا امتیاز و اختصاص یہ تھا کہ وہ قومی صحافت کے اتنے بڑے نقار خانے میں اہل حق کی نمائندگی کرنے والی ایک مضبوط اور توانا آواز کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا یہی امتیاز مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ جیسے عظیم محدث کے نزدیک انہیں ماموں کانجن سے اٹھا کر کراچی میں لا بٹھانے کا باعث بنا تھا۔ اور یہی امتیاز میرے جیسے کارکن کے لیے ان کے مرثیہ کا سب سے بڑا عنوان ہے۔
وہ آج کی صحافتی زبان کو سمجھتے تھے، اس کی کاٹ کو محسوس کرتے تھے، اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے تھے، اور ان کے جوابی وار میں جھنجلاہٹ کی بجائے زیر لب تبسم کے ساتھ چٹکی لینے اور اس سے حظ اٹھانے کا انداز نمایاں ہوتا تھا۔ اس لیے جب اس حوالہ سے مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کے المناک قتل اور شہادت پر غور کرتا ہوں تو ان کی جدائی سے پیدا ہونے والے خلا کی وسعتوں اور پھر ان میں اپنی تنہائی کو محسوس کر کے طبیعت میں گھبراہٹ سی پیدا ہونے لگتی ہے۔
مولانا لدھیانویؒ کو ملک کے ہر طبقہ کی طرف سے خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اور یہ ان کا حق بھی ہے کہ ملک کا کوئی طبقہ ان کے فیض سے محروم نہیں رہا۔ مگر مولانا لدھیانویؒ کا سب سے بڑا حق علماء پر ہے کہ وہ ان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے سب سے زیادہ خدمت بھی اسی خاندان کی کی ہے۔ اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے مؤثر اور صحیح طریقہ ان کی پیروی ہے اور ان کے نقش قدم کو اپنانا ہے۔ اور میں اپنی تنہائی کو ایک بار پھر یاد کرتے ہوئے نوجوان علماء سے گزارش کروں گا کہ وہ مولانا لدھیانویؒ کے اس اختصاص و امتیاز کو ضرور پیش نظر رکھیں جس نے دور افتادہ علاقے کے ایک مدرسہ کے مدرس مولوی کو جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فقیہ العصر محدث کے منصب تک پہنچا دیا تھا۔ اس لیے کہ یہ امتیاز و اختصاص مولانا لدھیانوی شہیدؒ کے ایک قابل تقلید وصف کے ساتھ دینی جدوجہد کے حوالہ سے وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔