روزنامہ پاکستان لاہور ۲۴ فروری ۲۰۰۶ء کی خبر کے مطابق لاہور میں ایک اور دس سالہ بچہ پتنگ بازی کی نذر ہوگیا، تفصیل کے مطابق پیکو روڈ کا دس سالہ بچہ حمزہ اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا کہ ایک پتنگ بجلی کی تاروں پر گری، اس کے ساتھ لٹکتی دھاتی تار سے چھو کر بچہ بری طرح جھلس گیا اور تھوڑی دیر کے بعد جاں بحق ہوگیا۔ اس دوران لاہور کے بعض شہریوں نے ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پتنگ بازی کے دھندے میں ملوث افراد کے لائسنس منسوخ کیے جائیں اور پتنگ بازی پر مستقل پابندی عائد کی جائے۔ اسی طرح چونگی امرسدھو میں ’’پتنگ متاثرین کمیشن‘‘ کے زیراہتمام طالبات نے پتنگ بازی کے خلاف مظاہرہ کیا ہے اور پتنگ بازی پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
پتنگ بازی کو ایک عوامی تفریح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ ایسی تفریح ہے جو ہر سال بیسیوں جانوں کا نذرانہ وصول کرتی ہے، بہت سے افراد زخمی ہوتے ہیں، بجلی کی سپلائی متاثر ہوتی ہے اور مجموعی طور پر کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس پر پابندی عائد کی تھی لیکن پنجاب حکومت نے قانون سازی کے ذریعے چور دروازہ فراہم کرکے منچلوں کے لیے اس کا راستہ کھول دیا ہے۔ ابھی موسم بہار کا آغاز ہے اور پتنگ بازی کی قبیح رسم نے جانوں کا نذرانہ لینا شروع کر دیا ہے، خدا جانے اس سال کتنے معصوم بچے اس ’’عوامی تفریح‘‘ کی بھینٹ چڑھیں گے۔
اس لیے ہم حکومت پنجاب سے گزارش کریں گے کہ وہ اس جان لیوا تفریح کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے عوامی جذبات، انسانی جانوں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرے اور پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کرکے بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
دینی مدارس میں غیر ملکی طلبہ
گزشتہ دنوں اسلام، کراچی اور لاہور میں تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں نے مشترکہ کنونشنوں میں اس عزم کو پھر سے دہرایا ہے کہ دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا اور کوئی حکومتی مداخلت دینی مدارس کے نظام میں قبول نہیں کی جائے گی، اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ دینی مدارس سے غیر ملکی طلبہ کو نہیں نکالا جائے گا اور اس سلسلہ میں حکومتی دباؤ کا مقابلہ کیا جائے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جو طلبہ قانونی طور پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس میں آئے ہیں انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکنے اور جبری طور پر ملک سے نکالنے کی کسی طرح بھی کوئی جواز نہیں ہے اور ایسا صرف مغرب کو خوش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مدارس پر بلا جواز دباؤ ڈالنے کی بجائے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور غیر ملکی طلبہ کے لیے پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بحال کرے۔