مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج وائٹ ہاؤس میں اپنے عہدہ کا حلف اٹھا کر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پینتالیسویں صدر کی حیثیت سے دورِ صدارت کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے اور وہ اپنے بعض متنازعہ بیانات کی وجہ سے منصبِ صدارت سنبھالنے سے پہلے ہی دنیا بھر میں مختلف النوع تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنی انفرادیت کو نمایاں کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ تاثر قائم کرنے میں وہ ایک حد تک کامیاب رہے ہیں کہ ان کا دورِ صدارت امریکہ میں داخلی اور خارجی دونوں حوالوں سے تبدیلیوں کا دور ہوگا۔ یہ تبدیلیاں کیا ہوں گی اور ان کا انداز اور رفتار کیا ہوگی بلکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ انہیں اس راہ پر چلنے کا کہاں تک موقع دے گی؟ ان سوالات کا جواب واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ لیکن ایک تبدیلی جو مجھے محسوس ہو رہی ہے اور مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی افتاد طبع سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی آگے بڑھے گی اور اس کے اثرات داخلی اور خارجی طور پر امریکہ کی پالیسیوں میں بھی محسوس ہوں گے، وہ یہ ہے کہ عالمی سیاست پر چھائی ہوئی دھند میں بہرحال کچھ نہ کچھ کمی ضرور آئے گی اور بہت سے معاملات پہلے سے زیادہ واضح صورت میں دکھائی دینے لگیں گے۔ یہ دھند دراصل ڈپلومیسی کی ہے جو عالمی معاملات اور تعلقات کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے اور کچھ پتہ نہیں چلنے دے رہی کہ کون کدھر سے آرہا ہے اور کدھر کو جا رہا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات پیلی بتیاں بھی آنے جانے والوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔
پانچ چھ سال پہلے تک کم و بیش ہر سال امریکہ اور برطانیہ چند ہفتوں کے لیے جانے کا معمول رہا ہے اور دونوں جگہ بیسیوں مرتبہ گیا ہوں۔ اب چند سال سے برطانیہ ویزا نہیں دے رہا جبکہ وہاں اترے بغیر سیدھا امریکہ جانے کو میرا جی نہیں چاہتا اس لیے یہ سلسلہ تقریباً موقوف ہی ہوگیا ہے۔ اس دور کی بات ہے کہ میں ورجینیا کے ایک دینی مرکز میں ٹھہرا ہوا تھا کہ کچھ حضرات ملنے کے لیے آئے اور بعض حساس معاملات پر گفت و شنید کے خواہاں ہوئے۔ وہ ایشین تھے مگر میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ہے اور وہ کچھ معاملات میں ریسرچ کر رہے ہیں۔ دورانِ گفتگو پاکستان کے دینی مدارس سے متعلقہ امور بھی زیر بحث آئے اور انہوں نے شکایت کی کہ دینی مدارس کے بعض ذمہ دار حضرات سے اس معاملہ میں متعدد بار گفتگو کی گئی ہے مگر گول مول بات کی جاتی ہے اور حقیقی صورتحال کسی معاملہ میں بھی نہیں بتائی جاتی جس سے ہمیں اصل حقائق تک پہنچنے میں دقت ہوتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ طریقہ ہم نے آپ لوگوں سے ہی سیکھا ہے۔ اور یہ انسانی نفسیات کا فطری تقاضہ ہے کہ جس طرح کسی سے بات کی جائے اور جو رویہ اس کے ساتھ اختیار کیا جائے اسے بھی وہی طرز اختیار کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمارے ساتھ سیدھی بات کی جائے گی تو جواب سیدھا ملے گا ،اور اگر آپ کی طرف سے بات چیت میں تہہ در تہہ ڈپلومیسی کا رنگ غالب ہوگا تو پھر ہماری طرف سے اسی نوعیت کے رویہ پر آپ کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ قارئین کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ ایک بار یورپی یونین کا ایک تعلیمی گروپ دینی مدارس کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کے دورے پر تھا ،اس دوران جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی آیا۔ ایک برطانوی خاتون سربراہی کر رہی تھیں ، انہوں نے سوال کیا کہ دینی مدارس قومی تحویل میں لیے جانے کو کیوں قبول نہیں کر رہے، میں نے عرض کیا کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں بیسیوں دینی مدارس سرکاری تحویل میں لیے گئے تھے، ان میں سے کوئی بھی اپنا وجود یا دینی تشخص قائم نہیں رکھ سکا۔ اس لیے یہ تجربہ ہم دوبارہ نہیں کرنا چاہتے۔ اس خاتون نے از خود اس میں اضافہ کیا کہ پاکستان میں قومیائے جانے والے دیگر بہت سے اداروں کی شکایت بھی یہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان کی بیوروکریسی آخر اس قدر کرپٹ اور ناقابل اعتماد کیوں ہے؟ میں نے گزارش کی کہ محترمہ! یہ آپ کے شاگرد ہیں اس لیے آپ ہی اس سوال کا بہتر جواب دے سکتی ہیں۔
اس صورتحال میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شروعات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس دو طرفہ دھند بلکہ ڈپلومیسی کے نام سے منافقت میں شاید کچھ کمی آئے گی اور ہو سکتا ہے بہت سے معاملات اصل صورت میں دکھائی دینے لگیں۔ ویسے امریکیوں کی ایک عادت ایسی ہے جو بعض دفعہ ہم غریبوں کے بھی کام آجاتی ہے۔ وہ یہ کہ امریکی اگر کسی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس کا کریڈٹ اپنے نام ریکارڈ میں محفوظ کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ چند سال قبل پاکستان میں فرقہ وارانہ صورتحال کو استعمال کرنے کی پالیسی طے ہوئی جس کے تحت ’’صوفی اسلام‘‘ اور ’’مولوی اسلام‘‘ میں فرق واضح کرنے کی مہم چلی تو اس سلسلہ میں کچھ افراد کے ساتھ اسلام آباد کے امریکی سفارت خانہ کی ڈیل ہوئی۔ معاملہ صرف چند ہزار ڈالرز کا تھا مگر امریکی سفارت خانہ کے حوالہ سے اسے ’’لیک‘‘ کرنا ضروری سمجھا گیا۔ ابھی چند روز قبل امریکہ کے سفارتی ذرائع سے ہی ایک اور ڈیل سامنے آئی ہے کہ کسی صاحب کو پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالہ سے کردار ادا کرنے کے لیے ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ ادائیگی کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ کریڈٹ لینے کا یہ امریکی شوق اس طرح ہمارے مفاد میں رہتا ہے کہ امریکی بعض اوقات بتا دیتے ہیں کہ وہ کن لوگوں سے کیسے کام نکلواتے ہیں۔ بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ’’پانامہ لیکس‘‘ بھی شاید امریکیوں کے اسی مزاج اور نفسیات کا شاخسانہ ہے۔
لطف کی بات ہے کہ مسٹر ٹرمپ نے عہدۂ صدارت سنبھالنے سے پہلے ہی اقوامِ متحدہ کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ یہ صرف گپ شپ اور وقت گزاری کا فورم ہے۔ اسی طرح میڈیا کے بارے میں وہ اس احساس کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس کی بنیاد زیادہ تر جھوٹ پر ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے مسٹر ٹرمپ کی یہ باتیں اچھی لگی ہیں اور اس سے یہ امید قائم ہونے لگی ہے کہ وہ صاف گوئی اور حقیقت پسندی کے عنوان سے عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے ماحول میں چھائی ہوئی اس گہری دھند کو کم کرنے میں کامیاب رہیں گے جس نے دنیا بھر کے اربابِ فکر و دانش کو مسلسل ابہام میں مبتلا کر رکھا ہے۔ چنانچہ انہی احساسات و تاثرات کے ساتھ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ کہتے ہوئے اطمینان محسوس کر رہا ہوں کہ ’’خوش آمدید مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ!‘‘۔