دینی تعلیم کا نظام اور قومی دھارا

   
دسمبر ۲۰۰۶ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۴ نومبر ۲۰۰۶ء کی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق نے کہا ہے کہ حکومت دینی مدارس کے تعلیمی نظام کو قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے اور اس حوالہ سے تین پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے۔ان میں پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ ملک بھر میں مدرسوں کے قیام کے لیے ٹھوس طریقہ کار اپنایا جائے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ نرسری کی سطح پر نصاب میں چند اہم مضامین، ریاضی، سائنس اور انگلش کو بھی شامل کیا جائے، جبکہ تیسرا اور آخری پہلو مدرسوں کو قومی دھارے میں لانا ہے۔

ہم اس سے قبل اس حوالہ سے کئی بار عرض کر چکے ہیں اور جناب اعجاز الحق کے اس تازہ بیان کے پس منظر میں پھر یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی گمراہ کن اصطلاح کو سوچے سمجھے بغیر بار بار دہرایا جا رہا ہے کیونکہ ایسا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دینی مدارس اس وقت قومی دھارے میں شامل نہیں ہیں اور وہ کوئی قومی ضرورت پوری نہیں کر رہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ دینی مدارس جو تعلیم دے رہے ہیں اور جس طرح کے افراد تیار کر رہے ہیں وہ ہماری قومی ضروریات کا حصہ نہیں ہیں، یہ انتہائی گمراہ کن بات ہے اور قومی اور معاشرتی زندگی میں دینی تعلیمات اور دینی افراد کے کردار کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جس طرح میڈیکل کالج صرف ڈاکٹر تیار کرکے، انجینئرنگ کالج صرف انجینئر تیار کرکے اور لاء کالج صرف وکلاء تیار کرکے قومی دھارے میں شامل ہیں اور ان میں سے کوئی ادارہ دوسرے ادارے سے متعلقہ تعلیم نہ دینے کی وجہ سے قومی دھارے سے باہر نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح دینی مدارس بھی صرف علماء، خطباء اور دینی مدرسین تیار کرکے قومی دھارے ہی کا حصہ ہیں۔ دینی مدارس کے تیار کردہ حضرات امام، خطیب، مدرس، مفتی اور مدرس کے طور پر جن شعبوں میں کام کر رہے ہیں وہ قومی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں اور قومی دھارے کے دائرہ میں شامل ہیں۔

پاکستان کا دستور ملک میں دینی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی معاشرہ کے قیام کی بات کرتا ہے اور حکومت کو اس کے لیے انتظامات کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اس لیے ہم وفاقی وزیر مذہبی امور سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات کرکے ان کے موجودہ قومی اور معاشرتی کردار کی نفی نہ کریں کیونکہ یہ معروضی حقائق کے خلاف ہے اور پاکستان کے اسلامی تشخص اور دستوری تقاضوں کی نفی ہے۔ جہاں تک دینی مدارس کے نظام و نصاب میں عصری علوم کو شامل کرنے کی بات ہے، ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ جو علم و فن دینی تعلیم اور دعوت کے حوالہ سے ضروری ہے ہم نے اس علم و فن کو نصاب میں شامل کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا اور ہم درجہ بدرجہ اس کا اہتمام کر رہے ہیں، لیکن جن علوم و فنون کو شامل کرنے سے ہمارا اپنا نصاب اور اس کا اسلامی تشخص ختم ہوتا ہو ہم اسے نصاب کے حصے کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جناب محمد اعجاز الحق اگر میڈیکل کالج کو قانون کی تعلیم دینے، لاء کالج کو سائنس پڑھانے اور انجینئرنگ کالج کو طب کی تعلیم دینے کی تلقین نہیں کر رہے تو دینی مدارس کو ان غیر متعلقہ علوم کو شامل نصاب کرنے کی ترغیب دے کر ان کے بنیادی ڈھانچے کو سبوتاژ کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter