”پاکستان شریعت کونسل“ کچھ عرصے سے ایک ترغیبی مہم جاری رکھے ہوئے ہے کہ ملک کے عوام کو باہمی تنازعات و مقدمات میں شرعی حوالے سے مشاورت اور مصالحت کی سہولت فراہم کی جائے، جس کے لیے دینی مدارس اور مساجد اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں باہمی تنازعات اور معاملات کے حل کے لیے اس وقت صرف دو فورم کام کر رہے ہیں، ایک فورم عدالتی مقدمات کا ہے، جبکہ دوسرا فورم مفتیانِ کرام کے فتاویٰ کا ہے۔ ان دونوں کی اہمیت اور ضرورت سے انکار کی گنجائش نہیں، لیکن ان سے قبل مشاورت اور مصالحت کے فورم کو بھی اگر متحرک کیا جا سکے تو اکثر و بیشتر معاملات اسی مرحلے میں نمٹ سکتے ہیں، جس کے بعد مقدمے بازی اور ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ حاصل کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔
چند سال قبل مجھے جنوبی افریقہ جانے کا موقع ملا تو وہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ ”مسلم جوڈیشنل کونسل“ کے نام سے علمائے کرام کا ایک ادارہ کام کر رہا ہے، جو مسلمانوں کے خاندانی اور مالی تنازعات میں شرعی حوالے سے مشاورت اور مصالحت کے لیے متحرک رہتا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح بتائی گئی کہ باہمی تنازعات کے حوالے سے مسلمان اس کونسل سے رجوع کر کے اس کے دفتر میں درخواست دیتے ہیں، ان درخواستوں پر ہفتہ وار اجلاس میں غور کر کے پہلے مرحلے میں کونسل کے ارکان کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے کہ وہ متعلقہ فریقین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر کے مصالحت کی کوشش کریں۔ اگر اس کے بعد کوئی معاملہ مصالحتی کردار کے ذریعے حل نہیں ہو پاتا تو پھر اسے مقدمے کے طور پر عدالت میں ٹرائل کیا جاتا ہے اور باقاعدہ فیصلہ دیا جاتا ہے۔
مسلمان جنوبی افریقہ میں اقلیت میں ہیں، لیکن ان کی شرعی عدالتوں کو ملک کے قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے اور ان کے فیصلوں کا سپریم کورٹ تک میں احترام کیا جاتا ہے۔ میرے سوال پر کونسل کے ایک ذمہ دار رہنما نے بتایا کہ دس میں سے ایک یا دو کیس مصالحت کی کوشش کے باوجود حل نہیں ہو پاتے، ورنہ اکثر تنازعات مصالحت اور ثالثی کے مرحلے میں نمٹ جاتے ہیں، جس سے فریقین مقدمے بازی کی کوفت سے بچ جاتے ہیں۔
مصالحت کا یہ عمل، جسے قانون کی زبان میں کونسلنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض صورتوں میں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ بعض عدالتیں مصالحت کے قابل معاملات میں فریقین کو موقع دیتی ہیں اور تلقین کرتی ہیں کہ وہ عدالت سے باہر مصالحت کے ذریعے اپنا معاملہ نمٹا لیں۔ لیکن ایسا بہت محدود دائرے میں اور جزوی طور پر ہو رہا ہے، جبکہ اس کا دائرہ وسیع کرنے اور ہر سطح پر اس کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ہماری عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور مقدمات کی کثرت بھی انصاف کے جلد حصول میں رکاوٹ بن رہی ہے، اس لیے اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مصالحت کے اس عمل کو اہمیت دی جائے، خاص طور پر علمائے کرام، دینی مدارس اور مساجد کے ذمہ دار حضرات اس میں کردار ادا کریں۔ اس سے جہاں لوگوں کو مقدمات کی کھینچا تانی سے نجات ملے گی، وہاں اپنے معاملات شریعت اسلامیہ کی روشنی میں حل کرانے کا بھی موقع ملے گا، جس کی برکات سے پوری قوم کو فائدہ حاصل ہو گا۔
۱۴ فروری ۲۰۱۳ء کو اس سلسلے میں فیصل آباد کے سرکردہ علمائے کرام کا مشاورتی اجلاس تھا، جو بزرگ رہنما حافظ ریاض احمد قادری چشتی کی دعوت پر قرآن سنٹر ڈجکوٹ روڈ میں منعقد ہوا، راقم الحروف بھی مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے ہمراہ اس میں شریک ہوا۔ راقم الحروف نے اجلاس کے شرکاء کو اس سلسلے میں پاکستان شریعت کونسل کی مہم کے بارے میں عرض کیا اور گزارش کی کہ ہمارے خیال میں مصالحت سے پہلے بھی مشاورت کا ایک دائرہ ہے، جس کا اگر اہتمام کر لیا جائے تو بہت سے جھگڑے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گے۔ ہمارے خیال میں عدالتی فتویٰ آخری سٹیج ہے، جس کا استعمال آخری مرحلے میں اور آخری چارہ کار کے طور پر ہونا چاہیے۔ اس سے قبل دو دائرے ہیں، ایک مشاورت کا کہ ہر شہر میں علمائے کرام کے مشاورتی بورڈ قائم ہوں، جن سے لوگ اپنے معاملات میں مشورہ کریں اور مشاورت کے بعد اگلے مرحلے میں قدم اٹھائیں۔
مثال کے طور پر ایک اہم مسئلے کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ہاں طلاق کے لیے عام طور پر عدالتوں کے احاطے میں عرضی نویسوں سے رجوع کیا جاتا ہے، جنہیں طلاق کے مسائل اور اثرات و نتائج کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ انہوں نے ایک عرضی نویس کے طور پر کچھ الفاظ فنی طور پر رٹے ہوئے ہیں، جنہیں کاغذ پر تحریر کر کے وہ طلاق دینے والے سے دستخط کرا لیتے ہیں۔ تین طلاقیں اکٹھی دینے کی صورت میں فقہ حنفی کی رو سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں اور رجوع و مصالحت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، مگر اہل حدیث کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوتی ہیں اور دوبارہ رجوع کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اب طلاق دینے والا شخص عرضی نویس کے رٹے ہوئے جملوں کی تحریر پر دستخط کر دینے کے بعد حنفی اور اہلحدیث مفتیوں کے درمیان شٹل بن کر رہ جاتا ہے اور عجیب و غریب قسم کی صورت حال سامنے آتی ہے۔
اس کی بجائے اگر فیصلہ کرنے سے قبل شرعی مشورہ کا کلچر عام ہو جائے اور طلاق کا ارادہ کرنے والا شخص مشورے کے لیے کسی عالم کے پاس چلا جائے تو ہر مکتب فکر کا عالم اسے ایسا مشورہ دے گا کہ اول تو طلاق کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور اگر ضروری طلاق دینا ہی ہے تو وہ اسے ایسے طریقے کی طرف رہنمائی کرے گا، جس سے بعد میں رجوع اور مصالحت کی گنجائش باقی رہے گی۔
بہت سے دیگر معاملات کی صورت بھی اسی طرح ہے کہ اگر فیصلہ کرنے سے قبل کسی سنجیدہ عالم دین سے مشورہ کر لیا جائے تو زیادہ تر یہی ہو گا کہ تنازع اور اختلاف کا امکان کم ہو جائے گا اور اگر اس کے بعد بھی جھگڑا اور تنازع بن جائے تو اسے مقدمہ بازی سے پہلے مصالحت کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے ہمارے خیال میں مقدمہ یا فتویٰ کو آخری آپشن کے طور پر ہی استعمال کرنا چاہیے اور اس سے قبل مشاورت اور مصالحت کے عمل کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میں نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ گوجرانوالہ میں ہماری ترغیب پر جمعیت اہل سنت والجماعت شہر کے سرکردہ علمائے کرام مولانا داؤد احمد میواتی، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا مفتی فخر الدین عثمانی، مولانا قاری گلزار احمد عثمانی/ قاسمی، مولانا احمد اللہ گورمانی، مولانا مفتی واجد حسین اور مولانا حافظ گلزار احمد آزاد پر مشتمل ”علماء مشاورتی بورڈ“ قائم کر لیا ہے اور اس کے لیے مرکزی جامع مسجد میں باقاعدہ دفتر بھی قائم کر دیا ہے، جو یکم مارچ سے کام شروع کر دے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
چنانچہ میری گزارشات کے بعد فیصل آباد کے علمائے کرام نے بھی ”علماء مشاورتی بورڈ“ کے قیام کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے لیے سرکردہ علمائے کرام اور رہنماؤں سے مشاورت کی غرض سے مولانا عبد الرزاق، حافظ ریاض احمد قادری، مولانا حق نواز خالد، مولانا قاری محمد نعیم سعدی اور حاجی محمد عابد پر مشتمل رابطہ کمیٹی قائم کی ہے، جو وسیع تر مشاورت کے ذریعے فیصل آباد کی سطح پر علماء مشاورتی بورڈ کے قیام کا اہتمام کرے گی۔ اجلاس میں چنیوٹ سے مولانا قاری محمد یامین گوہر، مولانا قاری عبد الحمید حامد اور حافظ محمد عمیر چنیوٹی اپنے دیگر رفقاء سمیت شریک تھے۔ انہوں نے بھی اس سے اتفاق کیا اور بتایا کہ وہ چنیوٹ کے دیگر علمائے کرام سے مشاورت کر کے اس سلسلے میں پیشرفت کریں گے۔
گوجرانوالہ واپسی پر ایک وکیل دوست علی شیخ ایڈووکیٹ سے اس حوالے سے بات ہوئی تو انہوں نے بھی اس تجویز کو پسند کیا اور کہا کہ وہ وکلاء برادری میں اس فکر کے فروغ کے لیے محنت کریں گے۔
پاکستان شریعت کونسل کو اس سلسلے میں کسی ٹائٹل پر اصرار نہیں ہے، ہر شہر کے لوگ اپنے حالات کے مطابق اس کے لیے کوئی بھی عنوان اور ٹائٹل اختیار کر سکتے ہیں۔ البتہ ہماری خواہش ہے کہ ملک کے عام شہریوں کو دینی مراکز، مساجد اور جماعتوں کی طرف سے یہ سہولت فراہم ہونی چاہیے کہ وہ
- کسی بھی معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل شریعت اسلامیہ کی روشنی میں مشاورت کر سکیں،
- کسی باہمی تنازع کی صورت میں شرعی بنیادوں پر مصالحت کے لیے تیار ہوں تو انہیں قابلِ مصالحت تنازعات میں اس کی سہولت اور مواقع فراہم کیے جائیں،
تاکہ وہ مقدمات کی کھینچا تانی، فضول اخراجات اور وقت کے ضیاع سے بچ سکیں۔ اس سے نہ صرف عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو گا، بلکہ عام لوگ شرعی احکام و قوانین کی برکات سے بھی فیضیاب ہو سکیں گے۔