ہمارے جیسے کچھ لوگ ملک میں فکری، معاشرتی اور دینی و قومی مسائل کا جو واویلا کرتے رہتے ہیں اس کا دائرہ کار کوئی عوامی تحریک نہیں بلکہ ’’توجہ دلاؤ تحریک‘‘ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ کسی عوامی تحریک کا اس کے سوا کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ بڑی دینی اور نظریاتی جماعتوں کی قیادت مل بیٹھے اور ملک کو درپیش سنگین مسائل کا احساس و ادراک کرتے ہوئے رائے عامہ کو منظم و متحرک کرنے کا کوئی راستہ نکالے۔ البتہ اس کے لیے انہیں سب سے پہلے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی اس لیے کہ ایک طرف قومی و دینی مسائل کے حل کے لیے پارلیمانی سیاست پر قناعت کر لی گئی ہے اور دوسری طرف دینی جدوجہد کے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑا دی گئی ہے، جبکہ قوم کے دینی و ملی امور ان دونوں کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گئے ہیں۔
ہم بارہا عرض کر چکے ہیں کہ دینی حلقوں کی اصل قوت رائے عامہ ہے، پبلک پریشر ہے، سول سوسائٹی ہے، پر اَمن عوامی تحریک ہے اور عدم تشدد پر مبنی پرجوش قانونی جدوجہد ہے، جس کے ذریعے ہم نے تحریک خلافت سے لے کر اب تک بہت کچھ حاصل کیا ہے اور آئندہ بھی آگے بڑھنے کا راستہ یہی ہے۔ مگر اس وقت معروضی صورتحال یہ ہے کہ جب بھی کسی قومی یا دینی مسئلہ پر عوامی تحریک کا ماحول بنتا دکھائی دیتا ہے تو بڑی جماعتوں کی قیادت کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تحریک کے امکانات و مواقع زلزلے کی زد میں آنے والے کچے مکان کی طرح بیٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پچھلے ایک عشرہ کے دوران ہم نے نصف درجن کے لگ بھگ ایسے مواقع اور امکانات کو زمین بوس ہوتے دیکھا ہے اس لیے ہم نے خود کو ’’توجہ دلاؤ تحریک‘‘ تک محدود کر رکھا ہے اور دینی و قومی لحاظ سے کوئی سنگین مسئلہ سامنے آتا ہے تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے ہلکی پھلکی بریفنگ کے ساتھ متعلقہ حلقوں کو توجہ دلا کر ’’لعل اللہ یحدث بعد ذٰلک امرًا‘‘ کا ورد کرنے لگ جاتے ہیں۔ مسائل یکے بعد دیگرے جس طرح بڑھتے جا رہے ہیں اسے دیکھ کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یاد آجاتا ہے کہ ’’میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح اترتے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ جبکہ ہم لوگ اس مصرعے کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں کہ ’’مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں‘‘۔
اس پس منظر میں اگر قارئین دو تازہ خبریں پڑھنے کا حوصلہ کر سکیں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے۔
ایک یہ کہ لاہور کے ایک محترم وکیل امجد علی ایڈووکیٹ کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ایک سال سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں شریعت ایپلٹ بینچ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی رٹ درخواست میں کہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سماعت کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں شریعت ایپلٹ بینچ بنایا گیا تھا مگر گزشتہ ایک سال سے یہ بینچ عملاً موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بے شمار سائلین کو وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف دادرسی کا حق نہیں مل رہا اور انصاف کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے عدالت عظمٰی سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ میں شریعت ایپلٹ بینچ کا قیام جلد از جلد عمل میں لایا جائے تاکہ شہریوں کو انصاف مل سکے۔
ہمیں جناب امجد علی ایڈووکیٹ کی اس درخواست کے ساتھ مکمل اتفاق ہے مگر اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ ایک سال سے عدالت عظمٰی میں شریعت ایپلٹ بینچ موجود نہیں ہے اور اس کی طرف توجہ دلانے کے لیے وکیل صاحب موصوف کو باقاعدہ رٹ دائر کرنا پڑی ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ پاکستان میں یورپی یونین کے سفیر جناب فرانکوئس کائین نے اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پاکستان کو یورپ کے ساتھ جی ایس پی پلس (+GSP) کے تجارتی دائرے میں شامل ہونے کے لیے انسانی حقوق کے ۲۷ عالمی معاہدات پر بہرحال عملدرآمد کرنا ہوگا اور اس ضمن میں محتاط اپروچ اختیار کرنا ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ یورپی یونین پاکستان میں ان معاہدات پر عملدرآمد کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے جسے یکم جنوری ۲۰۱۶ء کو یورپی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور اس کی بنیاد پر ’’جی ایس پی پلس‘‘ میں پاکستان کو شامل رکھنے یا اس کی شمولیت معطل کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
انسانی حقوق کے یہ ۲۷ عالمی معاہدات کیا ہیں، ان کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا نہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ دینی، علمی اور فکری اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ ان معاہدات کا جائزہ لے کر ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو قوم کے سامنے لائیں۔ البتہ اپنی محدود معلومات کے دائرے میں ہم اجمالی طور پر سردست اتنی گزارش کرنا چاہیں گے کہ:
- پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کو کمزور کرنے،
- دستورِ پاکستان میں قرارداد مقاصد اور دیگر اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے،
- خاندانی نظام کے شرعی احکام کو تبدیل کر کے اسے مغرب کے معیار پر لانے،
- ناموس رسالت کے تحفظ کا قانون ختم کرنے،
- قادیانیت کے خلاف دستوری و قانونی اقدامات کو منسوخ کرنے،
- سزائے موت کو یکسر ختم کر دینے،
- اور پاکستان کو مکمل سیکولر ریاست بنانے
کے جو مطالبات اور تقاضے مختلف حلقوں کی طرف سے مسلسل سامنے آرہے ہیں وہ انسانی حقوق کے انہی ۲۷ معاہدات کے حوالے سے ہیں۔ ہماری طالبعلمانہ رائے یہ ہے کہ باقی معاہدات سے قطع نظر صرف ’’انسانی حقوق کے عالمی چارٹر‘‘ کو مکمل طور پر قبول کرنے کی صورت میں خدانخواستہ ہمیں قرآن و سنت کے کم و بیش ۸۰ فیصد احکام و قوانین سے دستبرداری اختیار کرنا ہوگی۔ ملک کی رولنگ کلاس تو ایسا کرنا طے کر چکی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا قوم کی دینی قیادت نے بھی اس پر حسب سابق خاموش رہنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے؟