گزشتہ دنوں یہ خبر آئی تھی کہ مسز سارہ پالن نے، جو امریکہ کے گزشتہ انتخابات میں نائب صدر کے منصب کے لیے امید وار تھیں، امریکہ کی پرانی ’’ٹی پارٹی ‘‘ کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ امریکی معاشرہ کو ماضی کی قدروں کی طرف واپس جانے کا پیغام دے رہی ہیں۔ ’’ٹی پارٹی ‘‘ برطانوی استعمار کے خلاف امریکی عوام کی جدوجہد آزادی کا سب سے پہلا فورم تھا جب چائے کی تجارت پر ٹیکس لگایا گیا تو بوسٹن کے لوگوں نے اس کے خلاف احتجاجی طور پر ٹی پارٹی کے نام سے ایک فورم منظم کیا تھا جو برطانوی سامراج سے امریکہ کی آزادی کی جنگ کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا اور تاریخ میں اسے ٹی پارٹی کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔
مسز سارہ پالن بعض خبروں کے مطابق ۲۰۱۲ء میں ہونے والی صدارتی الیکشن میں صدر کے منصب کے امیدوار کے طور پر سامنے آرہی ہیں، اس لیے ماضی کی قدروں کی طرف واپسی کے ان کے نعرے کا مقصد بھی شاید یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ امریکی عوام کی توجہ حاصل کرنا چاہتی ہیں جن میں ماضی کی اقدار کی طرف واپسی کے رجحانات روز افزوں ترقی کر رہے ہیں اور جدید تہذیب و ترقی کے نتائج و ثمرات سے ان کی اکتاہٹ اب واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہے۔ ماضی کی قدروں کی طرف واپسی کا یہ نعرہ اب سے کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم جان میجر نے ’’بیک ٹو بیسکس‘‘ کے عنوان سے لگایا تھا اور برطانوی قوم کے لیے ان کا پیغام بھی یہی تھا کہ ماضی کی طرف واپسی کی راہیں تلاش کرو اور خاص طور پر خاندانی نظام کی پرانی قدروں کی بحالی کی طرف توجہ دو۔
کیسی عجیب بات ہے کہ امریکہ اور برطانیہ تو ماضی کی طرف واپسی کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں اور ماضی کی قدروں کی بحالی کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں مگر مسلم دنیا میں ماضی کے حوالہ سے بات ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور وہ اسے قدامت پسندی اور بنیاد پرستی قرار دے کر ماضی کی بات کرنے والے مسلمان حلقوں کی کردارکشی میں مصروف ہیں۔ ماضی کی قدروں کے خلاف بعض مغربی دانشوروں کا واویلا اپنے سیاسی مقاصد کے حوالہ سے سمجھ میں آتا ہے لیکن ماضی کی اقدار سے بغاوت کا مسلسل سبق دینے والے مسلمان دانشوروں کو تو کسی درجہ میں حیا اب ضرور محسوس کر لینی چاہیے کہ مسلمانوں کا ماضی مغرب کے ماضی سے بحمد اللہ تعالیٰ ہزاروں درجہ بہتر رہا ہے۔