عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ۲۷ اپریل کو منی اسٹیڈیم گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کے لیے سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے اور کامونکی، وزیر آباد اور قلعہ دیدار سنگھ میں علاقائی سطح پر علماء کرام کے اجتماعات کا اہتمام کر کے رابطہ کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ ۲۹ جنوری کو مسجد حق نواز شہید قلعہ دیدار سنگھ میں مولانا قاری محمد یوسف عثمانی اور مولانا محمد عارف شامی کے ہمراہ مجھے بھی علماء کرام کے اجتماع میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملا، جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
یہ مسئلہ امت میں چودہ سو سال سے متفقہ چلا آرہا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اور اس کی تشریح خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی ہے کہ ان کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ یہ پیش گوئی بھی فرما دی تھی کہ جھوٹے مدعیان نبوت بڑی تعداد میں ظاہر ہوں گے جو دجال اور کذاب ہوں گے۔ امت مسلمہ کا عقیدۂ ختم نبوت پر اسی تشریح کے مطابق ایمان و عقیدہ چلا آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سی خرابیوں کے باوجود امت نے اس مسئلہ پر کبھی لچک نہیں دکھائی اور نہ ہی کسی دور میں نبوت کے کسی دعویدار کو امت نے قبول اور برداشت کیا ہے۔ اس مسئلہ پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں احادیث میں گفتگو فرمائی ہے اور اس کے ایک ایک پہلو کی اس انداز میں وضاحت کر دی ہے کہ کسی طرح کا کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا، مگر اس کے باوجود امت میں سینکڑوں ایسے افراد سامنے آتے رہے ہیں جو طرح طرح کی تاویلات سے اپنے لیے نبوت اور وحی کی بات کرتے ہیں اور امت کو اس کا قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی یہی راستہ اختیار کر کے لاکھوں لوگوں کو گمراہ کیا لیکن امت مسلمہ کے کسی طبقہ نے بھی اس کی تاویلات کو قبول نہیں کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے تمام حلقوں نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔
یہ مسئلہ عقیدہ کی بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے بھی نازک اور حساس چلا آرہا ہے کہ نبوت ہی کسی دین میں فائنل اتھارٹی ہوتی ہے اور نئے نبی کے ساتھ اتھارٹی اور وفاداری کا مرکز بہرحال تبدیل ہو جاتا ہے۔ مذاہب کی دنیا میں ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نئے نبی اور نئی وحی کے ساتھ پہلے مذہب میں تغیر رونما ہوتا ہے اور نیا مذہب وجود میں آجاتا ہے جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قیامت تک دین میں اتھارٹی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات گرامی ہے، وہی ہر دور میں مسلمانوں کی وفاداری کا واحد مرکز رہے ہیں اور قیامت تک وہی اتھارٹی اور مرکز رہیں گے، اس لیے امت باقی معاملات کی بہ نسبت اس مسئلہ میں زیادہ حساس ہے کہ نئی نبوت اور نئی وحی کی بات جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتھارٹی اور مرکزیت کو مجروح کرتی ہے اس لیے اسے کسی صورت میں قبول بلکہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے دور میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے کہ امت مسلمہ میں سینکڑوں قسم کے اختلافات کے باوجود وحدت کا سب سے بڑا نکتہ عقیدۂ ختم نبوت ہے جس پر اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود امت مسلمہ کے تمام طبقات جمع ہوجاتے ہیں اور امت مسلمہ کی وحدت کا اظہار ہوتا ہے۔ آج کے دور میں فکری انتشار اور ذہنی افتراق عروج پر ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا عقیدہ اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا جذبہ یہ دو ایسے عنوانات ہیں جن پر امت متحد ہو جاتی ہے۔ اس لیے موجودہ دور کے مصائب و مشکلات اور مستقبل میں نظر آنے والے خدشات و خطرات کا سب سے بڑا علاج یہ ہے کہ امت میں وحدت کو فروغ دیا جائے اور وحدت و مرکزیت کی قوت کا وقتاً فوقتاً اظہار ہوتا رہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہمارا اب تک تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ جب بھی عقیدہ ختم نبوت کے لیے کوئی خطرہ پیدا ہوا ہے یا ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے ضرورت پڑی ہے تو امت کے تمام طبقات اور مکاتب فکر باہمی اختلافات کی سنگینی کو نظر انداز کرتے ہوئے متحد ہوئے ہیں اور یہ بھی تجربہ اور مشاہدہ کی بات ہے کہ جب بھی قوم اس مسئلہ پر متحد ہوئی ہے اسلام کے خلاف سازشیں خود بخود ناکام ہوتی چلی گئی ہیں۔
آج کی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کو ختم کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سی طاقتیں سرگرم عمل ہیں اور ان کی مسلسل کوشش ہے کہ دستور پاکستان کی اسلامی دفعات خاص طور پر قراردادِ مقاصد اور عقیدۂ ختم نبوت و ناموس رسالتؐ سے متعلقہ شقوں کو غیر موثر بنایا جائے لیکن ماضی میں عوامی اور پارلیمانی محاذوں پر ایسی کوششوں کی واضح ناکامی کو دیکھتے ہوئے اب نئی صف بندی کی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں عاصمہ جہانگیر کو نگران وزیر اعظم بنانے اور الیکشن کو کچھ عرصہ کے لیے التوا میں ڈال دینے کی جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان کے درپردہ بھی سازش دکھائی دیتی ہے کہ وہ کام جو رائے عامہ کی بیداری اور پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کی موجودگی کی صورت میں ہونے مشکل نظر آتے ہیں، انہیں ایک نگران وزیر اعظم اپنی مرضی کا لا کر اور اس کے اقتدار کو طول دے کر اس کے دور میں کرا لیے جائیں۔
ہم ماضی میں بھی ایسی سازشیں بھگت چکے ہیں جب معین قریشی کو نگران وزیر اعظم بنا کر ایسے بین الاقوامی معاہدات و معاملات طے کرا لیے گئے تھے جن کے جال میں ابھی تک ہم جکڑے ہوئے ہیں۔ مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ معین قریشی کے ذریعہ ہمیں مالیاتی اور معاشیاتی جال میں جکڑا گیا تھا اور اب عاصمہ جہانگیر یا اس طرز کے اور نگران وزیر اعظم کے ذریعہ دستوری اور قانونی مسائل میں اسی طرح کی صورت اختیار کی جائے گی اور ہمارے اردگرد مغربی فلسفہ و ثقافت اور نظام کی زنجیریں اور زیادہ کس دی جائیں گی۔ اس لیے بیدار ہونے اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں عالمی استعمار کی ہمہ گیر یلغار کے سامنے بند باندھنے کی یہی صورت معروضی حالات میں قابل عمل ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے مسئلہ پر قوم کو بیدار و منظم کر کے اسے مغرب کی تہذیبی یلغار کے مقابلہ میں سدّ سکندری بنا دیا جائے اور مجھے یقین ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی، ناموس اور ختم نبوت کے لیے مسلمانوں کا جذبہ و حمیت آج بھی ناقابل شکست ہے بشرطیکہ ہم اس کے لیے صحیح طور پر کام کریں اور رائے عامہ کو بیرونی سازشوں سے خبردار کرتے ہوئے متحد و منظم کردیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے علاقائی سطح پر ختم نبوت کانفرنسوں کی یہ مہم موجودہ حالات میں امید کی کرن ہے جس کی روشنی میں ہم فکری، اعتقادی اور تہذیبی طور پر موجودہ اور مستقبل کے فتنوں کا صحیح طور پر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی اس عوامی مہم کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ تحریک ختم نبوت کے حوالہ سے مختلف مذہبی مکاتب فکر کے راہ نماؤں پر مشتمل رابطہ کمیٹی نے بھی نگران وزیر اعظم کے لیے عاصمہ جہانگیر کا نام سامنے آنے پر باہمی مشاورت کا آغاز کر دیا ہے اور مجلس احرار اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب عبد اللطیف خالد چیمہ نے متحدہ ختم نبوت رابطہ کمیٹی کا اجلاس ۳ فروری کا لاہور میں طلب کر لیا ہے۔ حالات جس رخ پر آگے بڑھ رہے ہیں اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت و تشخص کو سبو تاژ کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح جو تانے بانے بُنے جا رہے ہیں وہ بہت گھمبیر خطرات کی غمازی کر رہے ہیں۔ دینی قیادت کو اس کے لیے بیداری اور حوصلہ و تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ہمارے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت ہی ہر دور میں محفوظ پناہ گاہ اور حصار رہی ہے، اس حصار کو اور زیادہ مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہر شخص، ہر گروہ کو اور ہر طبقے کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خدا کرے کہ ہم اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس امتحان و آزمائش میں بھی سرخروئی حاصل کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین۔