گزشتہ روز جامعہ فتحیہ لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام لاہور کے ذمہ داران کا ایک وفد ملاقات کے لیے آیا اور ان دوستوں سے ۱۹ مارچ کو لاہور میں منعقد ہونے والی ’’تحفظ آئین کانفرنس‘‘ کی تیاریوں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اطمینان ہوا کہ اس سلسلہ میں محنت کا آغاز ہو گیا ہے اور امید ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن اپنی روایات کے مطابق اسے کامیاب بنانے کے عزم میں سرخروئی حاصل کریں گے، ان شاء اللہ تعالٰی۔
ملک بھر سے متعدد دوست جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد کے اس نئے راؤنڈ کے حوالہ سے سوال کر رہے ہیں اور ان کے مختلف النوع سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس معاملہ کے دو تین پہلو خصوصی طور پر توجہ کے طلبگار ہیں۔
ایک یہ کہ برسر اقتدار طبقات کی غلط پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا تھا کہ اگر میں قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو تم لوگ میرا ساتھ دو اور میری اطاعت کرو۔ ’’وان انا زغت فقومونی‘‘ اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے بتلا دو یا میری غلطی کی نشاندہی کر دو۔ بلکہ فرمایا کہ مجھے سیدھا کر دو۔ اسے سیاسی زبان میں حکمران کے لیے عوام کا حق احتساب کہا جاتا ہے، جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کی تلقین فرمائی۔ جبکہ ہمارے ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی طرز عمل دستور پاکستان کے بھی منافی ہے اس لیے یہ حق اور ذمہ داری دونوں ڈبل ہو جاتے ہیں۔
حکمران کو سیدھا کر دینے کی عام طور پر تین صورتیں دیکھنے میں آتی ہیں:
- مسلح بغاوت کر کے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے۔
- عوامی انتخابات کے ذریعے حکومت کو تبدیل کر دیا جائے۔
- عوامی دباؤ اور اسٹریٹ پاور کے ذریعے انہیں اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر مجبور کیا جائے۔
جہاں تک کسی معاملہ کے لیے ہتھیار اٹھانے کا تعلق ہے، پاکستان میں قومی، دینی اور سیاسی سطح پر اسے مکمل طور پر مسترد کیا جا چکا ہے، اور جن لوگوں نے یہ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے انہیں سیاسی جماعتوں، دینی حلقوں اور علمی و فکری مراکز کی حمایت حاصل کرنے میں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
انتخابات کے ذریعے حکومت تبدیل کر دینے کی بات جمہوری مزاج اور معاشرہ رکھنے والے ملکوں میں تو سمجھ میں آتی ہے مگر ہمارے ہاں اب تک کے تجربات سے جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ:
- الیکشن کے ذریعے حکومتیں تبدیل ہو جانے کے باوجود ان کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔ جیسا کہ جنرل پرویز مشرف کی پارٹی کو عام انتخابات میں مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر جن پالیسیوں کی وجہ سے عوام نے انہیں مسترد کیا ان کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔
- الیکشن کے شفاف ہونے پر عوام اور سیاسی پارٹیوں کا اعتماد باقی نہیں رہا اور پس پردہ عوامل نے الیکشن کے نتائج کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لینے کو مستقل پالیسی بنا لیا ہے جس نے سیاسی بے اعتمادی اور خلفشار کو شدید بحران کی شکل دے دی ہے۔
چنانچہ ملک کے دستور و قانون کی بالادستی اور قرآن و سنت کی حکمرانی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے عوامی دباؤ اور اسٹریٹ پاور ہی عوام کے پاس واحد ذریعہ باقی رہ گیا ہے، جو اگرچہ مختلف اداروں اور لابیوں کی طرف سے مسلسل دباؤ اور تخویف و تحریص کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے لیکن اگر ملک کو دستور کے مطابق چلانا ہے اور آئین و قانون کی بالادستی قائم رکھنی ہے تو اس کے لیے پرجوش، پراَمن اور منظم عوامی جدوجہد کے سوا اور کوئی آپشن موجود نہیں رہا۔
اس پہلو سے بھی صورتحال کو دیکھ لینا چاہیے کہ دینی جدوجہد کے حوالہ سے ہمارے کارکنوں کا مزاج بدلتا جا رہا ہے کہ سہل پسندی اور عافیت کوشی دھیرے دھیرے رگوں میں سرایت کرتی دکھائی دے رہی ہے، اور دینی و سیاسی جدوجہد میں تشدد کا راستہ اختیار نہ کرنے کی تلقین کو سرے سے جدوجہد ترک کر دینے کے مترادف سمجھا جانے لگا ہے، جو انتہائی مایوس کن بات ہے۔ سیاسی و دینی کارکنوں کا عافیت کوشی اور سہل انگاری کی طرف مائل ہونا، ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتا ہے اور جب کسی بھی تحریک کے کارکنوں میں یہ صورتحال پیدا ہو جائے تو اس کے آگے بڑھنے بلکہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے راستے بھی مسدود ہو جاتے ہیں۔
جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن اس سے قبل کراچی سے اسلام آباد تک کے پراَمن مارچ میں اپنی حب الوطنی، اصول پرستی، عوام دوستی اور دین کے ساتھ بے لچک محبت کا شاندار مظاہرہ کر چکے ہیں اور دنیا نے کھلی آنکھوں دیکھ لیا ہے کہ اسلام، دستور اور ملک سے محبت کا پرچم بلند کرنے والے لوگ عزم اور استقامت کے ساتھ ساتھ حوصلہ، صبر اور نظم و ضبط کے اوصاف میں بھی نمایاں ہیں۔ یہ تسلسل قائم رہنا چاہیے اور جمعیۃ علماء اسلام کے کارکنوں کو پورے جوش و جذبہ کے ساتھ اس میں شریک ہونا چاہیے تاکہ وہ پاکستان کے عوام کے اس اعتماد میں خاطر خواہ اضافہ کر سکیں کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت، اس کی اسلامی شناخت کے تسلسل، خودمختاری کی بحالی، اور دستور پاکستان کی بالادستی و نفاذ کے لیے وہ زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں اور قوم کی مستقبل کی قیادت کے لیے ایک اچھی امید ثابت ہو سکتے ہیں۔