قرب قیامت کی پیش گوئیاں

   
مارچ ۲۰۰۳ء

مجلس التحقیق الاسلامی، ۹۹۔جے، ماڈل ٹاؤن لاہور کے زیر اہتمام ۲۶ جنوری ۲۰۰۳ء کو ’’قرب قیامت کی پیش گوئیوں‘‘ کے موضوع پر ایک علمی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر ’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی کا جو مکتوب حاضرین مجلس کو پڑھ کر سنایا گیا، اسے ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ (مدیر الشریعہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

بگرامی خدمت مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب زید مکارمکم

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مزاج گرامی؟

۲۶ جنوری ۲۰۰۳ء کے مذاکرہ میں شرکت کے لیے دعوت نامہ موصول ہوا۔ یاد فرمائی کا تہ دل سے شکریہ۔ میں ۲۶ جنوری کو نماز ظہر اور اس کے بعد ایک پروگرام کا وعدہ لاہور میں ہی ایک اور جگہ پہلے سے کر چکا ہوں اس لیے مذاکرہ میں شرکت میرے لیے مشکل ہوگی جس پر معذرت خواہ ہوں۔ عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ مذاکرہ میں شرکت کے لیے حاضر ہو رہا ہے، اس سے مجھے ضروری تفصیلات معلوم ہو جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

جس مسئلہ پر مذاکرہ کا انعقاد ہو رہا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پر کچھ عرض کرنا تو سردست مشکل ہے البتہ ایک دو اصولی باتوں کے حوالے سے مختصراً گزارش کر رہا ہوں کہ:

قرآن کریم یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کا اپنے دور کے واقعات پر اطلاق یا انہیں مستقبل کے حوالہ کر کے ان کے وقوع کا انتظار خود حضرات صحابہ کرام کے دور میں بھی مختلف فیہ رہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ’’دخان‘‘ اور ’’البطشۃ الکبریٰ‘‘ کی پیش گوئیوں کا حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اپنے دور کے حالات پر اطلاق کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ انہیں قیامت کی نشانیوں میں شمار کر کے اپنے دور میں ان کے وقوع کی بات قبول نہیں کرتے۔ اس سے اصولاً یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیش گوئیوں کے بارے میں تعبیر و تاویل کا دامن اس قدر تنگ نہیں ہے اور اہل علم کے لیے اس کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔

اصل الجھن ہمارے ہاں یہ رہی ہے کہ ہر دور میں اس نوعیت کی پیش گوئیوں کو اپنے دور کے احوال و ظروف کے دائرے میں رہ کر سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ وہی بات اب بھی ہو رہی ہے جبکہ مستقبل کا افق بہت وسیع ہے مثلاً امام مہدی کے ظہور کی روایات کا اطلاق بعض اہل علم نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ پر بھی کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ اس لیے ہوا تھا کہ ایسا کرنے والوں کے سامنے صرف اس دور کا تناظر تھا جبکہ مستقبل کے قیامت تک کے تناظر اور امکانات کو بھی سامنے رکھا جائے تو تاویل و تعبیر میں اس قدر آگے جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کا ظاہری مفہوم سرے سے اس میں تحلیل ہو کر رہ جائے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ذہنوں کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے کہ پیش گوئی کا ظاہری حالات میں پورا ہونا ممکن نظر نہیں آتا تو اسے عقلی طور پر قابل قبول بنانے کے لیے تاویل کا سہارا لینا مناسب سمجھا جاتا ہے جو ایک غیر ضروری محنت ہے کیونکہ مستقبل کے امکانات کا دائرہ حال کے امکانات سے کہیں زیادہ وسیع اور مختلف ہوتا ہے ۔ مثلاً یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ اور اس میں یہود کی ابتدائی کامیابیوں کا جن روایات میں تذکرہ ملتا ہے، آج سے ایک صدی قبل کے احوال و ظروف میں اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا لیکن آج اس کا وقوع بھی ہو چکا ہے۔

اس لیے میرا اپنا ذوق تو یہی ہے کہ پیش گوئیوں کو ان کے اصل مفہوم میں ہی سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اپنے دور کے حالات پر ان کا ہر حال میں اطلاق کرنے یا ان کے بظاہر ممکن نہ ہونے کو حتمی سمجھنے کے بجائے مستقبل کے پردۂ غیب میں مستور امکانات کے حوالے کر دیا جائے، البتہ اس باب میں اہل علم کے بحث و مباحثہ اور تاویل و تعبیر کے حق سے انکار نہ کیا جائے۔ بحث و مباحثہ اور تعبیر و تاویل کا یہ عمل گزشتہ چودہ صدیوں سے جاری ہے اور اب اس پر قدغن لگانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس کی ضرورت ہی ہے۔

مذاکرہ کے شرکاء سے سلام مسنون عرض ہے۔ شکریہ

والسلام

   
2016ء سے
Flag Counter