ایک عرصہ سے کان جو خبر سننے کے لیے ترس رہے تھے آج اس کا آغاز ہو گیا ہے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان سے فوجوں کی واپسی کے پروگرام کا اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت آدھی امریکی فوج پہلے مرحلہ میں واپس جائے گی اور باقی نصف فوج کی واپسی کا بھی جلد اعلان کر دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۲ دسمبر کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیں جو رائٹرز اور اے ایف پی کے حوالے سے ہے:
’’امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان سے آدھی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا، انخلا کا عمل آئندہ چند ماہ میں شروع ہو جائے گا۔ جبکہ وزیر دفاع جیمز میٹس شام سے فوج واپس بلانے کے فیصلے پر مستعفی ہو گئے، انہوں نے استعفٰی صدر کو پیش کر دیا۔ امریکی صدر کے فیصلہ نے مغربی اتحادیوں کو پریشانی سے دوچار کر دیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے حکام کے حوالہ سے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ افغانستان سے آئندہ مہینوں میں ۷ ہزار کے قریب فوجیوں کو نکال لیں۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق افغانستان میں اس وقت موجود ۱۴ ہزار امریکی فوجیوں میں سے ۵ ہزار کو واپس بلا یا جائے گا۔ رائٹرز نے ذرائع کے حوالہ سے بتایا کہ اس ضمن میں منصوبہ بندی کے زبانی احکامات دیے گئے ہیں، حکام کے مطابق کتنی مدت میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کی جائے گی؟ اس حوالہ سے ٹائم لائن پر غور کیا جا رہا ہے لیکن یہ عمل ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ افغانستان میں باقی بچ جانے والی امریکی فوجی کس طرح مختلف آپشنز جاری رکھیں گے؟ جس میں افغان فوج کی تربیت، زمینی کاروائی میں معاونت اور طالبان سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف فضائی کاروائیاں شامل ہیں۔ امریکی صدر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کے زیادہ حامی نہیں رہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے غیر متوقع فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان میں ۳ ہزار اضافی فوجی بھیجنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ رائٹرز نے ذرائع کے حوالہ سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نجی طور پر افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی پر شکوہ کرتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک اتحادی سے کہا تھا کہ ہم وہاں اتنے برسوں سے ہیں، ہم وہاں کیا کر رہے ہیں؟ ذرائع کے مطابق اب امریکی فوج میں کمی کے فیصلہ سے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور ۱۷ سالہ طویل جنگ صدر ٹرمپ کے لیے ناقابل برداشت بن چکی ہے اور کابل اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ وزارت دفاع کے حکام نے سی این این کو بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے فوج کا انخلا چاہتے ہیں اور وہ جنوری یا فروری کے آغاز میں سینٹ سے صدارتی خطاب کے دوران فوجیوں کی واپسی کے اعلان کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ‘‘
یہ خبر اپنے مندرجات کے حوالہ سے بہت سے پہلوؤں پر گفتگو کا تقاضہ کر رہی ہے مگر ہم اس مرحلہ میں خوش فہمی یا جذباتیت کے ماحول سے ہٹ کر سرِدست دو تین گزارشات کرنا چاہتے ہیں:
- پہلی گزارش امریکی قیادت سے ہے کہ ہمیں اس کے فیصلہ سے خوشی ہوئی ہے کہ بالآخر زمینی حقائق اور معروضی تقاضوں کا ادراک کر لیا گیا ہے اور امریکی قیادت نے ان کا احترام کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اگرچہ ’’بعد از خرابیٔ بسیار‘‘ ہے مگر بہرحال خوش آئند ہے کہ ایک طویل اور بے مقصد جنگ کو کسی حد تک بریک تو لگی۔ ہمیں امید ہے کہ امریکی قیادت اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے سنجیدگی سے آگے بڑھے گی، اس موقع پر ہمیں خدا جانے کیوں جارج واشنگٹن، ابراہیم لنکن اور جیفرسن کا امریکہ یاد آرہا ہے جو قوموں کی آزادی، ممالک کی خودمختاری اور انسانی جان کی حرمت و قدر کا علمبردار ہوا کرتا تھا، اور امریکی قیادت سے یہ سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کیا ہم اس دور کی طرف امریکہ کی واپسی کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟
- دوسری گزارش پوری افغان قوم بالخصوص طالبان کی قیادت امارت اسلامیہ افغانستان سے ہے کہ یہ آپ لوگوں کے صبر و حوصلہ، استقامت و عزیمت اور تدبر و دانش مندی کا ثمرہ ہے اور آپ اس پر تحسین و تبریک کے مستحق ہیں، مگر ہمارے خیال میں صبر و استقامت اور حوصلہ و تدبر کا اصل امتحان اب شروع ہونے والا ہے کیونکہ ہم فقیروں کو یہ ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں روسی فوجوں کی واپسی کے بعد کا ماحول دوبارہ قائم نہ ہو جائے کیونکہ جس طرح زمینی لڑائی میں پسپا ہونے والی فوجیں جاتے جاتے بارودی سرنگیں بچھا جاتی ہیں اسی طرح فکری، سیاسی اور ثقافتی پسپائی کے بعد بھی فکری بارودی سرنگوں کا جال سنبھالنے والوں کے لیے ’’وبال جان‘‘ بن جایا کرتا ہے جس کا ہم پاکستانی سات عشروں کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے اس دام ہمرنگ زمین سے بچنے کے لیے ہم دو چھوٹی چھوٹی درخواستیں کر رہے ہیں کہ (۱) اپنے مستقبل کا جو فیصلہ بھی کریں خدارا قومی تناظر میں کریں، (۲) اور ایک مستحکم اور خود مختار اسلامی افغانستان کے ظہور میں آنے تک افغانستان سے باہر کے معاملات میں الجھنے سے خود کو بہرحال بچا کر رکھیں۔ ہماری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں اور رہیں گی، اللہ تعالیٰ افغانستان کو استحکام، خود مختاری اور اسلامی تشخص کی بحالی کی منزل سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔
- جبکہ تیسری گزارش ’’جان کی امان پاؤں‘‘ کی تمہید کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں اور مقتدرہ سے ہے کہ خدا کے لیے پاکستان کی اسلامیت اور خود مختاری کے تقاضوں کو آپ بھی سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کی بحالی کی کوئی صورت ضرور نکالیں۔ اگر اپنے تمام تر ضعف و اضمحلال کے باوجود افغان قوم اپنی اسلامیت اور خود مختاری کا پرچم سربلند رکھ سکتی ہے تو پاکستانی قوم کو اس سے دور رکھنے کے لیے خود اس کی اپنی اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ کیوں بنی ہوئی ہے؟