روزنامہ دنیا گوجرانوالہ میں ۲۴ جنوری ۲۰۲۰ء کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیں:
’’عالمی عدالت انصاف نے میانمار حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کا حکم دے دیا، نسل کشی کے خلاف ۱۹۴۸ء کے کنونشن کے تحت افریقی ریاست گیمبیا کی درخواست پر اقدامات کی منظوری دیتے ہوئے عالمی کورٹ کے جج عبد القوی احمد یوسف نے درخواست گزار ملک کو مقدمے کی کاروائی مزید آگے بڑھانے کی اجازت دے دی ہے، عدالت نے میانمار کی حکومت کو پابند بنایا کہ وہ مسلمان کمیونٹی کے خلاف اپنی فوج کے ظالمانہ اقدامات روکے، نیگون حکومت کو روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لئے چار ماہ کے اندر تمام اقدامات کر کے رپورٹ جمع کرانے، اور ہر چھ ماہ بعد اس حوالہ سے رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران میانمار کی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ عالمی عدالت انصاف اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتی جس پر گیمبیا کے دلائل سن کر عدالت نے قرار دیا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے مقدمہ سننے کی یہ عدالت مجاز ہے، واضح رہے کہ میانمار میں ۲۰۱۷ء کے فوجی کریک ڈاﺅن کے نتیجے میں سات لاکھ چالیس ہزار مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی تھی۔‘‘
میانمار (برما) کا یہ خطہ جو اراکان کہلاتا ہے، مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور یہاں صدیوں مسلمانوں کی آزاد حکومت رہی ہے۔ جسے برطانوی استعمار نے اس علاقے میں کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تقسیم کر کے اس کے دارالحکومت چٹاگانگ کو بنگال میں شامل کیا تھا اور دوسرے حصے کو برما کے سپرد کر دیا تھا۔ یہاں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے جو طویل عرصہ سے نسلی تعصب اور اس کی آڑ میں مذہبی منافرت کا نشانہ بنتے آرہے ہیں اور مختلف ادوار میں ہزاروں افراد شہادت سے ہمکنار ہونے کے علاوہ لاکھوں مسلمان بنگلہ دیش اور دیگر ملکوں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ انہیں نسل در نسل اس خطہ میں آباد چلے آنے کے باوجود وہاں کا شہری تسلیم نہیں کیا جا رہا اور میانمار کی حکومت وہاں کے بدھ کاشٹوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے متعدد بار فوجی آپریشنوں کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام اور جلاوطنی کے جرائم کا ارتکاب کر چکی ہے۔
اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے علاوہ متعدد دیگر عالمی ادارے اور مسلم ممالک کی باہمی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) مختلف مواقع پر رپورٹیں پیش کرتے ہوئے آواز اٹھاتے رہے ہیں مگر توجہ دلانے اور آواز اٹھانے سے آگے کوئی عملی جدوجہد کسی طرف سے اب تک سامنے نہیں آئی۔ اس لیے اب اگر گیمبیا کی حکومت نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا کر مظلوم اراکانی مسلمانوں کی دادسی کی کوئی صورت نکالی ہے تو وہ پورے عالم اسلام کی طرف سے شکریہ کی مستحق ہے اور اس سے کسی حد تک دلوں میں اطمینان کا احساس اجاگر ہوا ہے کہ کسی طرف سے کوئی آواز تو اٹھی ہے اور کسی مسلمان حکومت نے دینی حمیت کا مظاہرہ تو کیا ہے۔ یہ کام دراصل بنگلہ دیش کے کرنے کا تھا کہ وہ پڑوسی مسلمان ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اراکان کے سابق دارالحکومت چٹاگانگ کو اپنے دامن میں سنبھالے ہوئے ہے اور اس نے لاکھوں اراکانی مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے، اور حکومت پاکستان کا حق بنتا تھا کہ متحدہ پاکستان کے دور میں اراکان اس کی پڑوسی ریاست تھی۔ جبکہ تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت اس ریاست کے مسلمانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور ہمارے خیال میں ان کی یہ معصوم خواہش ہی ان پر ظلم کی رسی دراز ہونے کا باعث بنی ہے۔ پھر اس کیس کی اصل مدعی او آئی سی تھی کہ اس کے قیام کا مقصد ہی دنیا بھر کے مسلمانوں کی دیکھ بھال اور مسلم علاقوں کے درمیان ربط و تعاون کا فروغ بیان کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور گیمبیا نے بالآخر یہ قدم اٹھایا جس پر ہم گیمبیا کو خراج تحسین پیش کرنا اپنی دینی و ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
اگرچہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے سے عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کی توقع بظاہر مشکل ہے اس لیے کہ عالمی عدالت اور عالمی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اس نوعیت کے بہت سے اہم فیصلے صرف اس لیے گومگو کی سولی پر لٹکے چلے آرہے ہیں کہ ان کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ اور فلسطین اور کشمیر سمیت بہت سے علاقوں کے بارے میں اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے متعدد فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال سے واضح ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام و جلاوطنی کا یہ سلسلہ صرف اراکان تک محدود نہیں بلکہ کشمیر، سنکیانگ اور دنیا کے بہت سے دیگر علاقوں میں بھی جاری ہے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے والے بھارت میں مسلمانوں کی شہریت کے بارے میں مودی حکومت کے حالیہ اقدامات بھی اس سے مختلف دکھائی نہیں دیتے۔
تاہم عالمی عدالت انصاف اور گیمبیا کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں، اداروں اور لابیوں سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ اراکان، سنکیانگ اور اراکان کے مسلمانوں کی یہ مسلسل مظلومیت بہرحال دنیا بھر کے مسلمانوں کی ملی حمیت کے لیے سوالیہ نشان کی حقیقت رکھتی ہے اور ہمیں اس کے لیے ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کے مسلط کردہ دائروں سے ہٹ کر ملی تقاضوں اور دینی ذمہ داریوں کے حوالہ سے ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا کہ اس کے سوا اس کا مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔