چھٹی کے روز اور کوئی کام نہ ہو یا کوئی اور کام کرنے کو جی نہ چاہ رہا ہو تو ہلکے پھلکے مطالعہ میں وقت گزارتا ہوں۔ اس سے میری مراد افسانوی ادب ہے، کوئی اچھا سا ناول مل جائے تو وقت زیادہ اچھا گزر جاتا ہے، ورنہ مختلف ماہناموں میں شائع ہونے والے ناولٹ اور افسانے بھی کام دے جاتے ہیں۔ آج چھ دسمبر (ہفتہ) کو مدرسے میں عید الاضحیٰ کی تعطیلات کا پہلا دن تھا۔ میں نے رات ہی گھر والوں سے پوچھ لیا کہ کوئی نیا رسالہ ہے؟ کہ ان کا ذوق بھی یہی ہے، انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ کیا مطالعہ نہیں کرنا؟ اس مطالعہ سے ان کی مراد اسباق کی تیاری تھی، کیونکہ صبح طلبہ کو پڑھانے کے لیے رات کو گھنٹہ دو گھنٹہ تدریسی مطالعہ میرا معمول ہے۔ میں نے جواب دیا کہ صبح چھٹی ہے۔ نیا رسالہ تو کوئی نہ ملا، البتہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے سوانح و افکار پر ان کی بیٹی کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ”سیدی و ابی“ مل گئی، جو شاہ جیؒ کے نواسے اور مصنفہ محترمہ کے فرزند سید کفیل شاہ بخاری صاحب نے چند ماہ قبل مجھے دی تھی اور گھر آتے ہی اس پر گھر والوں کا قبضہ ہو گیا تھا، اس لیے میں اب تک اس کا مطالعہ نہیں کر سکا تھا۔ صبح نماز کے بعد حسبِ معمول چائے کا کپ پیا اور وہ کتاب اٹھا لی کہ آج کا دن افسانوں کے ساتھ نہیں، بلکہ حقیقتوں کے ساتھ گزارا جائے گا۔
ایک بیٹی نے اپنے باپ کے بارے میں اپنی یادداشتوں کو الفاظ کا لباس پہنایا ہے۔ باپ کا نام ”سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ“ ہے اور بیٹی نے اپنا تعارف ”امِ کفیل بخاری“ کے نام سے کرایا ہے کہ وضعدار دینی خاندانوں کی روایت یہی چلی آ رہی ہے۔ شاہ جیؒ پر اس سے قبل بھی بہت کچھ پڑھ چکا ہوں اور ان کی زیارت نہ کر سکنے کی حسرت ان کے بارے میں جو کچھ بھی مل جائے پڑھ کر کم کرنے کی کوشش کیا کرتا ہوں۔ مجھ سے جب دوست پوچھتے ہیں کہ آپ نے حضرت امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی زیارت کی ہے؟ تو میں جواب دیا کرتا ہوں کہ شاہ جیؒ نے مجھے دیکھا ہے۔ اس لیے کہ حضرت شاہ جیؒ جب گکھڑ تشریف لائے اور جلسہ عام سے خطاب فرمایا تو میں شاید سال ڈیڑھ سال کا بچہ تھا۔ گکھڑ میں ایک احراری بزرگ ماسٹر بشیر احمد کشمیریؒ تھے، جنہیں حضرت والد صاحب مدظلہ کے ساتھ خصوصی تعلقات کی وجہ سے ہم چچا جان کہا کرتے تھے، وہ اس جلسے کے منتظمین میں سے تھے۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ شاہ جیؒ کی گکھڑ آمد کے موقع پر تمہیں ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور انہوں نے تمہیں گود میں اٹھا کر تمہارے لیے دعا فرمائی تھی۔
سیدہ ام کفیل بخاری کی ان یادداشتوں میں، جو ”سیدی و ابی“ کے نام سے اب تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں، اپنے والد محترم کے ساتھ گزرے ہوئے ان کی زندگی کے مختلف مراحل کے واقعاتی تذکرہ کے علاوہ جیل سے بیٹی کے نام لکھے گئے خطوط بھی شامل ہیں، جن سے بہت سی نئی معلومات ملتی ہیں، ایمان اور ایمانی جذبات کی ”چار جنگ“ ہوتی ہے اور آنکھیں بھی لمحہ بہ لمحہ تراوٹ اور نمی کے نت نئے حظ سے دوچار ہوتی رہتی ہیں۔ پڑھتے پڑھتے جی چاہا کہ اس کی کچھ جھلکیاں قارئین کی خدمت میں بھی پیش کر دی جائیں۔
- سب سے پہلے تو آٹو گراف ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے ۲۸ دسمبر ۱۹۴۵ء کو بمبئی میں ”ہلالِ نو“ کے دفتر میں کسی عقیدت مند کے لیے تحریر فرمایا: ”مخلوق میں جب تک خالق کا نظام نہیں چلایا جائے گا، دنیا میں امن نہیں ہو گا۔“
- ۱۹۵۶ء کے دوران راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شاہ جیؒ نے اپنی بیٹی کے بارے میں کہا کہ ”میری بیٹی، میرے ظاہری اسباب میں سے، میری حیات کا باعث ہے۔ اللہ بیٹوں کو بھی سلامت رکھے، مگر بیٹی سے مجھے بہت محبت ہے۔ اس نے کئی بار کہا ابا جی! اب تو اپنے حال پر رحم کریں، کیا آپ سفر کے قابل ہیں؟ چلنے پھرنے کی طاقت آپ میں نہیں رہی، کھانا پینا آپ کا نہیں رہا۔ یہ آپ کا حال ہے، کیا کر رہے ہیں آپ؟ میں نے کہا تم نے میری دُکھتی رگ پکڑی ہے، میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں؟ بیٹا! تم بہت خوش ہو گی اگر میں چارپائی پر مروں؟ میں تو چاہتا ہوں کسی کے گلے پڑ کر مروں۔ تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں باہر نکلوں میدان میں اور یہ کہتا ہوا مر جاؤں کہ ”لا نبی بعد محمد، لا رسول بعد محمد، لا امۃ بعد امۃ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ بیٹا! دعا کرو کہ عقیدۂ ختم نبوت بیان کرتے ہوئے اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے مجھے موت آ جائے۔“
-
۱۹۴۰ء کے دوران دفتر احرار لاہور کی ایک مجلس میں شاہ جیؒ سے سوال ہوا کہ آزادی کی جدوجہد میں آپ کی کارکردگی کیا ہے اور آپ کا مثبت نظریہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ ”یہ فیصلہ تو آپ کیجئے کہ میری کارگزاری کیا ہے؟ میں تو یہ جانتا ہوں کہ میں نے لاکھوں ہندوستانیوں کے ذہن سے انگریزوں کو نکال پھینکا ہے۔ میں نے کلکتہ سے خیبر تک اور سری نگر سے راس کماری تک دوڑ لگائی ہے، وہاں پہنچا ہوں، جہاں دھرتی پانی نہیں دیتی۔ رہا یہ سوال کہ آزادی کا وہ کون سا تصور ہے، جس کے لیے میں لڑتا رہا تو سمجھ لیجئے کہ ”اپنے ملک میں اپنا راج۔“
آپ غالباً مجھ سے کسی کتابی آئیڈیالوجی کا پوچھ رہے ہوں گے؟ بابو! یہ کتابی نظریے عموماً روگ ہوتے ہیں۔ فی الحال جو مرحلہ درپیش ہے، وہ کسی مثبت تصور کا نہیں، منفی تصور کا ہے۔ ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ غیر ملکی طاقت سے گلوخلاصی ہو، اس ملک سے انگریز نکلیں، نکلیں کیا؟ نکالے جائیں، تب دیکھا جائے گا کہ آزادی کے خطوط کیا ہوں گے؟ آپ تو نکاح سے پہلے چھوہارے بانٹنا چاہتے ہیں۔ پھر میں کوئی دستوری نہیں، سپاہی ہوں، تمام عمر انگریزوں سے لڑتا رہا اور لڑتا رہوں گا۔ اگر اس مہم میں سور بھی میری مدد کریں تو میں ان کا منہ چوم لوں گا۔ میں تو ان چیونٹیوں کو بھی شکر کھلانے کے لیے تیار ہوں جو ”صاحب بہادر“ کو کاٹ کھائیں۔ خدا کی قسم! میرا ایک ہی دشمن ہے، انگریز۔ اس ظالم نے نہ صرف مسلمان ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی، ہمیں غلام رکھا اور مقبوضات پیدا کیے، بلکہ خیرہ چشمی کی حد ہو گئی کہ قرآن حکیم میں تحریف کے لیے جعلی نبی (مرزا غلام احمد قادیانی) پیدا کیا، پھر اس ”خود کاشتہ پودے“ کی آبیاری کی، اور اب اس کو چہیتے بچے کی طرح پال رہا ہے۔ تم فرنگی کو نہیں جانتے، اس نے روحیں قتل کر دی ہیں، اسلام اٹھ گیا، مسلمان رہ گیا، ہائے! اکبر کس وقت یاد آیا ؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی“ - ایک روز فرمانے لگے، ”امرتسر میں بیٹھک میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا کہ سڑک پر سے چارپائیاں ٹھونکنے والا گزرا اور اس نے آواز لگائی کہ ”منجی پیڑھی ٹھکا لو۔“ معاً مجھے خیال آیا کہ یہی حال برطانوی فوج میں شامل ہمارے مسلمان بھائیوں کا ہے۔ یہ ترکھان تو روزی کمانے کے لیے کندھے پر اپنے اوزار اٹھائے پھرتا ہے اور مسلمان فوجی کندھے پر انگریز کی بندوق رکھ کر کہتا ہے: مصری مروا لو، حجازی مروا لو، ترکی مروا لو، شامی مروا لو، ۱۵، ۱۶ روپے دو اور جس کو چاہو مروا لو۔ (تب ۱۵، ۱۶ روپے ہی تنخواہ ہوتی تھی۔)“
- ایک روز چھریاں چاقو تیز کرنے والے ایک پٹھان سے فرمایا کہ ”تم اتنی محنت کرتے ہو، لیکن مسلمان بھائیوں کو قرض سود پر دیتے ہو، یہ تو حرام ہے۔“ اس نے جواب دیا کہ ”یہ لوگ یہاں سے جاتے ہیں اور ہم آزاد قبائل پر بم اور گولیاں برساتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ بناتے ہیں، کون کاپر (کافر) کا بچہ ان کو مسلمان سمجھتا ہے؟“
- وہ اقبالؒ کے ارادت مند اور اقبالؒ ان کے عقیدت مند تھے۔ لاہور میں ہوتے تو اقبالؒ کی مجالس میں ۔۔۔ شریک ہوتے۔ اقبالؒ باوضو ہو کر بیٹھ جاتے اور ان سے فرمائش کر کے قرآن کریم سنتے، خاص طور پر سورۂ مزمل۔ پھر ان کی فرمائش پر اپنا کلام سناتے۔ اباجی بتایا کرتے تھے کہ قرآن کریم سنتے وقت اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر اقبالؒ کی آنکھیں پرنم ہو جایا کرتی تھیں۔
انہوں (شاہ جیؒ) نے ایک تقریر میں اقبالؒ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مسلمانو! قرآن پڑھا کرو۔ سید احمد شہیدؒ کی طرح نہ سہی، اقبالؒ کی طرح ہی پڑھ لو۔ دیکھو! اس نے قرآن کو ڈوب کر پڑھا تو دانشِ افرنگ پر ہلہ بول دیا۔ اقبالؒ کو قوم سمجھ لیتی تو کبھی غلام نہ رہتی اور انگریز سمجھ لیتا تو وہ تختہ دار پر ہوتے۔ وہ بت کدۂ ہند میں اللہ اکبر کی صدا تھے۔“
- موجودہ گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیر کے والد محترم ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر مرحوم بھی شاہ جیؒ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ ۱۹۴۶ء کے دوران جب وہ دہلی میں سرکاری ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی آمد کے موقع پر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کی نومسلم انگریز اہلیہ بلقیس تاثیر (سابقہ نام کرسٹابل جارج) بھی ساتھ تھیں، اس موقع پر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر مرحوم نے شاہ جیؒ کو چار فارسی اشعار نذر کیے:
دل است بندۂ احرار و جاں اسیرِ فرنگ
نہ بہرۂ ہمہ صلح و نہ چارۂ ہمہ جنگ
میانِ کعبہ و بت خانہ عرصۂ یک گام
میانِ شیخ و برہمن، ہزار ہا فرسنگ
نمود بر سرِ اظہار و کوہکن یک تن
ہزار پیکرِ شیریں فسرد در رگِ سنگ
بیا کہ خاوریاں نقش تازہ تربستند
بیا کہ باز ستانیم افسر و اورنگ
ترجمہ:
میرا دل تو احرار کا غلام ہے، لیکن روح فرنگی کی اسیر ہے، چنانچہ نہ تو میں یکسر صلح کر سکتا ہوں اور نہ کلی طور پر جنگ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔
کعبے اور بت خانے کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ ہے (کہ پہلے وہ بت خانہ ہی تھا)، مگر شیخ و برہمن کے درمیان ہزارہا فرسنگ کا فاصلہ ہے۔
اگرچہ کوہکن (فرہاد) ایک ہی شخص تھا، لیکن اس نے اپنے اظہار کا سر بسر حق ادا کیا، جبکہ پتھروں کے دل میں ہزاروں شیریں جیسے پیکر موجود تھے، لیکن ٹھٹھر کر رہ گئے۔
آؤ کہ اہلِ مشرق نے تازہ تر نقش بنایا ہے، آؤ کہ ہم اپنا تخت و تاج واپس چھین لیں۔
شاہ جیؒ کے لیے ڈاکٹر تاثیر مرحوم کا یہ نذرانہ اگر ان کے فرزند جناب سلمان تاثیر ہماری طرف سے قبول کر لیں تو ”زہے عز و شرف“