وفاقی وزارت مذہبی امور کے تحت گزشتہ دنوں سرکردہ علماء کرام اور وفاقی وزراء کے درمیان عید الاضحٰی اور قربانی کے انتظامات کے حوالہ سے ہونے والی ویڈیو لنک مشاورت کا تذکرہ گزشتہ کالم میں کیا تھا، اس سلسلہ میں بادشاہی مسجد لاہور کے خطیب مولانا سید عبد الخبیر آزاد نے وفاقی وزارت مذہبی امور کو SOPs (سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) کے لیے کچھ تجاویز بھجوائی ہیں جو انہی کے الفاظ میں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان تجاویز پر کھلے دل سے گفتگو اور مباحثہ کی ضرورت ہے تاکہ ہم بروقت کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں۔
ہماری معلومات کے مطابق دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادتوں کے درمیان بھی اس مسئلہ پر مشاورت چل رہی ہے اور ایس او پیز کا کوئی خاکہ تجویز کیا جا رہا ہے، مکمل ہونے پر وہ بھی ان شاء اللہ تعالٰی پیش کر دی جائیں گی۔
البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی صحت کے ناگزیر تقاضوں، مذہبی شعائر و عبادات کے تحفظ و احترام اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اعلٰی مذہبی قیادت، ماہرین صحت اور متعلقہ ذمہ دار حکام باہمی مشاورت و اعتماد کے ساتھ جلد کسی اجتماعی لائحہ عمل کا اعلان کر دیں تاکہ قوم اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہے اور عید الاضحٰی اور قربانی بھی رمضان المبارک اور عید الفطر کی طرح مناسب ماحول میں کی جا سکے۔
’’عوام الناس اجتماعی قربانی مختلف مدارس اور اداروں کے ذریعے کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں ہی اس سنت ابراہیمی کو ادا کرنا پسند کرتے ہیں، اس کو بہتر سمجھتے ہیں اور گھروں میں حفاظتی تدابیر کا اہتمام بہتر طریقے سے کیا جاتا ہے۔ جبکہ اگر قربانی شہروں سے باہر کی جائے گی تو اس صورت میں زیادہ ہجوم ہو گا اور پورا شہر قربان گاہوں میں جمع ہوگا، کیونکہ ایک جانور میں اگر سات حصے ہیں تو کم از کم سات لوگ تو ہوں گے جن کی قربانی ہے، قصائی اور اس کے ساتھ ہیلپر عملہ اس کے علاوہ ہے۔ ہر شخص اپنی نگرانی میں یہ فریضہ ادا کرنا چاہتا ہے اور ہر حصہ دار شخص اپنے ساتھ اپنے خاندان کے لوگوں سمیت وہاں پر جمع ہو گا، کسی کو روکا نہیں جا سکے گا تو ہجوم بڑھتا چلا جائے گا، جس سے کرونا وائرس پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ حسب سابق پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی قربانی کو اسی طرح رکھا جائے جس طرح صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں، مناسب ہو گا کہ ان پر عمل کیا جائے:
- قربانی کے جانوروں کی خریدوفروخت کا عمل بہت اہمیت رکھتا ہے، اس موقع پر بیوپاری اور خریداروں کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیا جائے، سماجی فاصلہ کو اختیار کیا جائے اور اس پر پابندی یقینی بنائی جائے۔ جب تک ایک گاہک فارغ نہ ہو جائے تب تک دوسرے کو بیوپاری تک رسائی نہ دی جائے۔
- حسب سابق شہروں سے باہر جہاں جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں اس میں سماجی فاصلہ کو برقرار رکھا جائے اور اس کا خصوصی اہتمام کیا جائے، ہر شخص اپنا جانور خریدے اور وہاں سے فورًا چلا جائے، رش پیدا نہ ہونے دیا جائے۔
- خریداروں کے رش کو کم کرنے کے لیے شہر سے باہر متعدد جگہوں پر منڈیوں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے اور تمام جگہوں پر ایس او پیز کا سختی سے اہتمام کیا جائے۔
- جانوروں پر جراثیم کش اسپرے کیے جائیں اور گندگی اور کیچڑ والی جگہوں کی بجائے صاف ستھری اونچی اور کھلی جگہوں کا انتخاب کیا جائے، تاکہ اگر بارش بھی ہو تو وہاں پر غلاغت اور بارش کا پانی جمع نہ ہو اور فورًا وہ جگہ صاف ہو جائے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال لاہور کے لیے تنگ اور نشیبی جگہوں کا انتخاب کیا گیا اور بارش ہونے پر بہت زیادہ غلاظت اور کیچڑ پیدا ہوا اور لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں کہ جانوروں اور چارہ وغیرہ کو صاف ستھرا رکھنا مشکل ہو گیا۔
- شہر کی انتظامیہ اور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ذمہ لگایا جائے کہ وہ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی قربانی کے موقع پر لوگوں کو ویسٹ شاپر مہیا کریں اور الائشوں کو فوری اٹھانے کا بندوبست کریں۔
- اجتماعی قربانی کے حوالے سے مدارس دینیہ اور مختلف اداروں پر لوگوں کا اعتماد بہت زیادہ ہے۔ مدارس میں ایک اچھے نظم کے ساتھ قربانی کی جاتی ہے اور وہ اس سلسلہ میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ہر شخص کو اس کی قربانی کا حصہ گوشت وغیرہ اس کے گھر میں ہی پہنچا دیا جاتا ہے اور کسی قسم کا رش وغیرہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اس ترتیب پر عمل کیا جانا زیادہ آسان اور قابل عمل ہے، لہٰذا اس کو عام کیا جائے تاکہ مزید اچھے طریقے سے قربانی ہو سکے اور گوشت وغیرہ کی تقسیم ہو سکے۔
- جس طرح باقاعدہ مساجد میں نمازوں اور جمعہ و عیدین کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر ہم نے ایس او پیز بنائے ہیں اور ان پر عمل پیرا بھی ہوئے ہیں، اسی طرح عید الاضحٰی کے لیے بھی ایس او پیز بنا دیے جائیں، اس سے لوگوں کے لیے آسانی پیدا ہو گی اور عوام الناس اچھے طریقے سے نماز عید الاضحٰی کی ادائیگی اور قربانی کر سکیں گے۔
یہ چند تجاویز اور آرا تمام علماء کرام کے مشورہ کے ساتھ دی گئی ہیں جو ۲۰ جون کو وفاقی وزارت مذہبی امور کے ویڈیو لنک اجلاس میں شریک تھے، جس میں بالخصوص مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا زاہد الراشدی، مولانا زاہد محمود قاسمی، مولانا سید چراغ الدین شاہ، صاحبزادہ اللہ بخش لیار اور زیر دستخطی و دیگر شامل ہیں۔‘‘