لدھیانہ اور چندی گڑھ میں

   
۱۴ دسمبر ۲۰۱۳ء

دیوبند اور دہلی میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت کے لیے ۱۱ دسمبر کو مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہم واہگہ بارڈر کراس کر کے بارہ بجے کے لگ بھگ انڈیا میں داخل ہوئے تو پروگرام یہ بنا کہ ظہر کی نماز امرتسر کی مسجد خیر دین میں ادا کریں گے۔ جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی راہ نماؤں نے جو دہلی اور دیوبند سے تشریف لائے ہوئے تھے اور امرتسر کے بس ٹرمینل پر پاکستان کے قافلہ کا انتظار کر رہے تھے، استقبال اور خیر مقدم کے مرحلہ سے فارغ ہوتے ہی تقاضہ کیا کہ لدھیانہ میں دوپہر کا کھانا ہے، جبکہ رات کا قیام چندی گڑھ میں ہے، اس لیے جلد روانہ ہونا چاہیے۔ مگر مولانا فضل الرحمن نے اصرار کیا کہ ہم مسجد خیر دین میں نماز ظہر ادا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے قافلے کا رخ لدھیانہ کی بجائے امرتسر کے اندرون شہر کی طرف مڑ گیا۔ مسجد خیر دین امرتسر کی تاریخی مسجد ہے، کہا جاتا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کا تاسیسی اجلاس اسی مسجد میں ہوا تھا اور آزادیٔ وطن تک یہ مسجد امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت اور ان کے رفقاء کی تحریکی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے۔

میں اس سے قبل ۱۹۸۰ء میں دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر یہاں آچکا ہوں مگر اس وقت مسجد پرانی تھی، اب یہ مسجد نئی اور وسیع تعمیر ہو چکی ہے۔ مولانا حامد حسن قاسمی مسجد کے امام و خطیب ہیں جو ۱۹۸۶ء سے یہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور یہاں ایک مدرسہ بھی ہے جس کے بچوں نے مہمانوں کا عقیدت و احترام کے ساتھ خیر مقدم کیا۔ مسجد میں پہنچے تو نماز ظہر ادا ہو چکی تھی، قافلہ کے شرکاء نے مولانا فضل الرحمن کی امامت میں نماز ادا کی، ہمارا قافلہ کم و بیش تیس افراد پر مشتمل ہے جن کی مکمل فہرست تو اگلے کسی کالم میں ذکر کر سکوں گا، البتہ اس میں مولانا محمد خان شیرانی، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا قمر الدین، مولانا اللہ وسایا، مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو، مولانا عطاء الرحمن، مولانا عبد الغفور حیدری، مولانا گل نصیب خان، مولانا محمد امجد خان، جناب نور احمد کاکڑ، مولانا سید محمود میاں، مولانا حافظ عبد القیوم، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا سعید یوسف خان اور مولانا محمد شریف ہزاروی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ شہر میں خاصا رش تھا اس لیے کافی وقت لگ گیا، عصر اور مغرب کی نمازیں راستہ میں ادا کرنا پڑیں اور جب ہم لدھیانہ کی مرکزی جامع مسجد میں پہنچے تو وہ لوگ نماز عشاء ادا کر چکے تھے۔

رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پوتے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ثانی نے اپنے رفقاء سمیت قافلہ کا خیر مقدم کیا اور کھانے کا اہتمام کیا۔ نماز عشاء ادا کرنے کے بعد قافلہ کے شرکاء مولانا حبیب الرحمن ثانی کی ضیافت سے شام کام ہوئے۔ مولانا موصوف اپنے خاندان کی روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں، کل ہند مجلس احرار اسلام کے صدر ہیں اور انہوں نے نہ صرف تحریک آزادی کے اس عظیم عنوان کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ قادیانیت کے تعاقب میں بھی وہ اپنے بزرگوں کے مشن کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ امیر احرار ہند مولانا حبیب لدھیانوی ثانی نے مولانا فضل الرحمن کو نشان اعزاز کے طور پر تلوار پیش کی۔ یاد رہے کہ حبیب ثانی انڈیا میں تلوار والے مولانا لدھیانوی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

تحریک آزادی میں علماء لدھیانہ کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں جہاد کے فتوے کے ساتھ شرکت کے علاوہ مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر و الحاد کو بروقت بھانپتے ہوئے اس کی تکفیر کا فتویٰ سب سے پہلے صادر کرنے کا اعزاز بھی اس خاندان کو حاصل ہے۔ تحریک خلافت اور پھر اس کے بعد مجلس احرار اسلام میں رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا کردار تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کا کردار پاکستان کی دینی جدوجہد میں بھی اپنا الگ امتیاز رکھتا ہے۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ ، حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد نعیم لدھیانویؒ کے بعد اب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی کا قائدانہ رول علماء لدھیانہ کی تاریخ میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے، جبکہ سپاہ صحابہؓ کی قیادت بھی مولانا محمد احمد لدھیانوی کر رہے ہیں۔

پاکستان کی دینی و سیاسی جدوجہد میں میری طویل رفاقت جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر مولانا محمد عمر لدھیانوی اور علامہ محمد احمد لدھیانوی رحمہ اللہ تعالیٰ آف گوجرانوالہ کے علاوہ محترم جناب حمزہ صاحب کے ساتھ بھی رہی ہے جو لدھیانہ سے تعلق رکھتے ہیں، ایک بزرگ عالم دین کے فرزند ہیں، مغربی پاکستان اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینٹ کے سرگرم ارکان میں ان کا شمار ہوتا آرہا ہے، اور ملک کے با اصول اور حوصلہ مند سیاست دانوں میں ان کا نام بطور خاص ذکر کیا جاتا ہے۔

لدھیانہ سے روانہ ہو کر تقریباً رات ساڑھے گیارہ بجے ہم چندی گڑھ میں داخل ہوئے، یہ پنجاب اور ہریانہ دو صوبوں کا مشترکہ طور پر دارالحکومت ہے، جبکہ خود اس شہر کا نظم و نسق مرکزی حکومت نے سنبھال رکھا ہے۔ راستہ میں جالندھر، کرتار پور، پھگواڑہ اور دوسرے متعدد شہروں سے گزرتے ہوئے چندی گڑھ پہنچے ہیں اور جمعیۃ علماء ہند کی میزبانی میں ایک پر فضا پہاڑی ماحول میں واقع گولڈن ٹیولپ ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کے فرزند مولانا مودود مدنی اور حضرت مولانا مرغوب الرحمنؒ کے فرزند مولانا مفتی انوار الرحمن کے علاوہ مولانا وہاب الدین قاسمی اور مولانا حکیم الدین قاسمی نے امرتسر میں قافلے کا خیر مقدم کیا تھا اور میزبان کے طور پر قافلے کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ میں نے جب سفر کا ارادہ کیا تو خواہش تھی کہ خدا کرے دارالعلوم دیوبند کے علاوہ جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور اور لدھیانہ کے علاوہ سرہند شریف کی حاضری کی کوئی صورت نکل آئے۔ رات کو سونے سے قبل جب اپنے میزبانوں سے دریافت کیا تو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آج (جمعرات) کا پروگرام یہی ہے کہ پہلے سرہند شریف جائیں گے اور سید الطائفہ حضرت مجدد الف ثانی قدس اللہ سرہ العزیز کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد سہارنپور جانا ہوگا جہاں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس اللہ سرہ العزیز کے فرزند و جانشین حضرت مولانا محمد طلحہ مدظلہ کی زیارت و ملاقات ہوگی اور اس کے بعد رات دیوبند پہنچ جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter