بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ مسجد نبوی تھی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، صحابہ کرامؓ کی مجلس تھی، میں بھی بیٹھا ہوا تھا، ایک آدمی آیا، سلام عرض کر کے بیٹھ گیا۔ اور کہا یا رسول اللہ! میں جس علاقے سے آیا ہوں اس علاقے میں چوریاں بہت ہوتی ہیں، ڈکیتیاں بہت ہوتی ہیں، بدکاریاں بہت ہوتی ہیں، قتل بہت ہوتے ہیں، جان محفوظ نہیں، مال محفوظ نہیں، عزت محفوظ نہیں۔ بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر گزری، ایک اور شخص آیا۔ سلام عرض کیا، یا رسول اللہ! میں جس علاقے سے آیا ہوں وہاں خشک سالی بہت ہے، بارش نہیں ہوتی، کافی عرصہ سے بارش نہیں ہوئی، غلّہ نہیں ہے، کنویں گہرے ہو گئے ہیں، پانی خشک ہو گیا ہے، بھوک طاری ہے لوگوں پر، کھانے کو نہیں ملتا، فاقہ ہے، بڑا برا حال ہے۔ جناب نبی کریم ﷺ نے ان سے تو کچھ نہیں کہا، عدی کہتے ہیں مجھے مخاطب کیا۔
- عدی! تم نے حیرا دیکھا ہے؟ یہ شہر تھا ایک، اب یہ کوفہ کے ساتھ ہو گا کہیں۔ یا رسول اللہ! دیکھا تو نہیں، سنا ہے، بڑا مشہور منڈی ہے، بڑا مشہور شہر ہے، بڑا بارونق علاقہ ہے، دیکھا تو نہیں، سنا تو ہے۔ فرمایا، عدی! اگر اللہ رب العزت نے تمہیں تھوڑی لمبی عمر دی تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھو گے کہ حیرا سے ایک خاتون چلے گی، مکے آئے گی، اونٹ کے کجاوے میں بیٹھی ہو گی، اونٹ پر سفر کرے گی، تنہا ہو گی، سونے چاندی کے زیورات سے لدی ہوئی ہو گی، حیرا سے چلے گی مکہ آئے گی، مکہ سے چلے گی حیرا جائے گی، آتے جاتے پورے راستے میں اسے اللہ کی ذات کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا ۔ عدی کہتے ہیں عجیب سی بات تھی، یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن حضورؐ فرما رہے ہیں کہ ہو گا۔ کہتے ہیں ایک سوال میرے ذہن میں آیا، سوال میرے ذہن میں گھومتا رہا، میں نے کیا نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دوسری بات فرما دی۔
- عدی! اگر تم نے کچھ اور عمر پائی، لمبی عمر ہوئی تیری تو ایک منظر اور دیکھو گے۔ کسرٰی کے خزانے فتح ہوں گے، اس مدینہ میں آئیں گے، تقسیم ہوں گے۔ یہ منظر بھی دیکھو گے۔ کسرٰی، اس زمانے کی سپر پاور کا حکمران۔ عدی کہتے ہیں، بڑی تعجب کی بات تھی، میں نے پہلا سوال تو نہیں کیا، یہ سوال کر دیا۔ یا رسول اللہ! وہ ہرمس کا بیٹا کسرٰی، فارس کا بادشاہ، وہ؟ حضورؐ نے بڑے اطمینان سے سر ہلایا نعم۔ ہاں ہاں وہی کسرٰی بن ہرمس۔ عدی کہتے ہیں میرا دماغ گھوم رہا ہے، لیکن ایمان تو تھا۔ حضورؐ نے تیسری بات فرما دی۔
- عدی! اگر اللہ رب العزت نے تمہیں اور تھوڑی لمبی عمر دی تو ایک منظر اور دیکھو گے، کہ تم لوگ ہاتھوں پر سونا چاندی اٹھا کر یوں بازار میں جاؤ گے، منڈیوں میں جاؤ گے، آواز دو گے کہ یہ میری زکوٰۃ ہے، میرے محلے میں، میری برادری میں، کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہا، کوئی زکوٰۃ کا مستحق میری آواز سن رہا ہو تو خدا کے لیے مجھ سے زکوٰۃ وصول کرے اور مجھے فارغ کرے۔
عدی جب یہ روایت بیان کر رہے ہیں ، واقعہ تو حضورؐ کے زمانے کا ہے، لیکن جب یہ روایت بیان کر رہے ہیں، یہ حضرت عمرؓ کا زمانہ ہے۔ پندرہ بیس سال کے بعد بیان کر رہے ہوں گے۔
- کہتے ہیں والذی نفسی بیدہ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، حضورؐ نے تین باتیں فرمائی تھیں، دو باتیں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں، اور تیسری کے انتظار میں ہوں ایسے جیسے رات کو صبح کے سورج کی انتظار ہوتی ہے۔ کہتے ہیں نبی کریم ﷺ نے کوئی تمثیل نہیں بیان کی تھی، پیشگوئی فرمائی تھی، میں نے ایک خاتون کو حیرا سے مکے جاتے ہوئے دیکھا ہے، مکے سے واپس آتے ہوئے دیکھا ہے، ہمارے پاس سے گزر کر گئی ہے، سونے چاندی کے زیورات سے لدی ہوئی تھی، کجاوہ سامان سے بھرا ہوا تھا، بڑے مزے سے گئی ہے، بڑے مزے سے آئی ہے۔ پورے راستے میں کہیں بھی اس کو خدشہ نہیں ہوا، کوئی قتل کر دے گا، کوئی سونا اتار لے گا، کوئی زیور لے لے گا، کوئی عزت لوٹ لے گا، کوئی بے عزتی کرے گا، بڑے امن سے گئی ہے، بڑے امن سے آئی ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں۔
- فرماتے ہیں، میں نے کسرٰی کے خزانے فتح ہوتے دیکھے ہیں، مدینہ میں آتے دیکھے ہیں، تقسیم ہوتے دیکھے ہیں۔ نہیں، فتح کرنے والوں میں، اٹھا کر لانے والوں میں، میں خود بھی شامل تھا۔
- اور محدثین فرماتے ہیں یہ تیسری بات بھی حضرت عمرؓ ہی کے زمانے میں پوری ہو گئی۔ حضرت معاذ بن جبلؓ معروف صحابی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی یمن کے گورنر تھے، اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی یمن کے گورنر تھے۔ یمن کے علاقے سے حضرت معاذ بن جبلؓ نے سال کی جو آمدنی ہوئی، بیت المال کی، زکوٰۃ، عشر، صدقات، جزیہ، خراج وغیرہ، آج کی اصطلاح میں ریوینیو کہہ لیں، سال میں جو وصول ہوا، اور صوبے کا بجٹ پورا ہو گیا، تنخواہیں اور وظیفے وغیرہ سارے پورے کر کے پیسے بچ گئے، فاضل بجٹ تھا، ایک تہائی، مرکز کو بھیج دیا۔ مرکز ناراض ہو گیا، حضرت عمرؓ نے خط لکھا۔ ’’ کتاب الاموال‘‘ میں موجود ہے یہ۔ فرمایا، معاذ! تم تو سمجھدار آدمی ہو، عالم ہو، حضورؐ کے زمانے میں بھی گورنر رہے ہو، تمہیں پتہ ہے، جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کا اصول یہ ہے تـؤخذ من اغنیاءھم وترد علٰی فقراء ھم جس علاقے کے امراء سے وصول کی جائے اسی علاقے کے غرباء میں خرچ کی جائے۔ یہ وہاں کے غرباء کا حق ہے، مجھے کیوں بھیج دیا؟ یمن کے امیروں سے وصول ہوئی ہے تو یمن کے فقیروں کا حق ہے یہ۔ معاذ بن جبلؓ نے خط لکھا، امیر المومنین! آپ ٹھیک فرما رہے ہیں، مجھے معلوم ہے یہ۔ لیکن میرے صوبے کے بیت المال کی ساری ضروریات پوری ہونے کے بعد یہ پیسے بچ گئے ہیں۔
بات یہیں نہیں رہی، اگلے سال آدھی آمدنی بھیج دی۔ خط لکھا ، یا حضرت! اس سال ضرورت کم رہی ہے، یہ آدھی آمدنی بچ گئی ہے وہ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ تیسرے سال دو تہائی بھیج دی۔ اور ’’کتاب الاموال‘‘ کی روایت بیان کر رہا ہوں کوئی افسانہ نہیں بیان کر رہا۔ چوتھے سال پورے کا پورا ریونیو مرکز میں بھیج دیا اور خط لکھا، امیرالمومنین! اللہ کے قانون کی برکت سے اور آپ جیسے نیک حکمران کی برکت سے میرے صوبے میں آج ایک آدمی بھی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے۔