مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کے داماد تھے اور ان کی جگہ مرکزی جامع مسجد کچہری بازار فیصل آباد میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ بنیادی طور پر تبلیغی جماعت سے تعلق تھا اور دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں ہمہ تن منہمک رہتے تھے لیکن حضرت مفتی زین العابدینؒ کی طرح سیاسی اور تحریکی ذوق سے بھی بہرہ ور تھے۔ کچہری بازار کی مرکزی جامع مسجد فیصل آباد میں دینی و سیاسی تحریکات کا مرکز رہی ہے اور اب بھی ہے۔ مفتی ضیاء الحق صاحبؒ اس کے تقاضوں سے بے خبر نہیں تھے اور پورے حوصلہ و تدبر کے ساتھ ان تقاضوں کو نباہتے تھے، کوئی بھی دینی جدوجہد ہو یا مسلکی مسئلہ ہو مفتی صاحبؒ کی خطابت اور جدوجہد دونوں کا اس میں معقول حصہ ہوتا تھا۔ حق گو اور بے باک خطیب تھے اور ملی درد رکھنے والے دینی رہنما تھے۔
مفتی صاحب مرحوم سے میری پرانی دوستی تھی، مختلف تحریکات میں ساتھ رہتا تھا، باہمی مشاورت بھی ہوتی تھی، بڑی محبت اور شفقت کا اظہار فرماتے تھے۔ چند ماہ قبل حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی یاد میں جامع مسجد کچہری بازار میں تعزیتی جلسہ تھا، میں بھی حاضر تھا۔ اس موقع پر خطاب کے دوران مفتی ضیاء الحق صاحبؒ نے میرے بارے میں کہا کہ اسے میں نے بطور خاص اس جلسہ میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے اس لیے کہ حضرت مفتی صاحبؒ کی جدوجہد کے بعض پہلوؤں سے یہ واقف ہے جو دوسرے حضرات کے سامنے نہیں ہیں۔ ان کی یہ بات درست تھی اس لیے کہ حضرت مفتی زین العابدینؒ ہمہ تن تبلیغی بزرگ ہونے کے باوجود دینی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور بہت سے معاملات میں سامنے آئے بغیر بھرپور راہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ مفتی ضیاء الحق مرحوم کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔
مفتی صاحب مرحوم سے میری آخری ملاقات ۷ ستمبر کو چناب نگر میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سالانہ جلسہ میں ہوئی۔ مجھے جلسہ سے فارغ ہو کر رات ہی رات اسلام آباد پہنچنا تھا کیونکہ ۸ ستمبر صبح دس بجے اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی کونسل کا اجلاس تھا۔ نصف شب کے لگ بھگ اپنے خطاب سے فارغ ہوا تو اسٹیج سے اتر کر یہ سوچ رہا تھا کہ کوئی دوست اس وقت مجھے چنیوٹ پہنچا دے تو میرے لیے اگلا سفر آسان ہو جائے گا۔ اسی سوچ میں مہمانوں کی قیام گاہ کی طرف جا رہا تھا کہ قریب سے ایک کار گزرتے ہوئے رکی اور مولانا مفتی محمد ضیاء الحق کی آواز کانوں میں پڑی کہ مولانا کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ مہمان خانہ جا رہا ہوں، پوچھا کہ آگے پروگرام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ پروگرام تو اسلام آباد جانے کا ہے۔ کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ آجائیں فیصل آباد سے آپ کو سوار کرا دیں گے۔ میں نے گاڑی کی طرف دیکھا تو وہ بھری ہوئی تھی۔ دیگر احباب کے ہمراہ حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کے فرزند مولانا محمد یوسف بھی تھے۔ ان حضرات نے خاصی مشقت اٹھا کر میرے لیے جگہ بنائی۔ راہ میں گپ شپ چلتی رہی اور مختلف امور پر گفتگو ہوئی مگر کسے خبر تھی کہ یہ آخری ملاقات ہے اور اس کے بعد مفتی صاحب کی پر لطف گفتگو اور زعفرانِ زار محفل کا اس دنیا میں موقع نہیں مل سکے گا۔ راستہ میں چنیوٹ کے قریب جامعہ امدادیہ میں رکے، کچھ کھایا پیا اور پھر ان حضرات نے مجھے فیصل آباد میں نادر کوچ کے اڈہ سے اسلام آباد کی طرف روانہ کر دیا۔
مولانا مفتی محمد ضیاء الحقؒ کا انتقال انتیس رمضان المبارک کو ہوا، دل کے مریض تھے مگر روزے رکھ رہے تھے۔ انتیسویں شب علالت کے باوجود بھرپور انداز میں گزاری۔ ختم قرآن کریم کی دو تقریبات میں شرکت کی، ایک میں تفصیلی بیان کیا جبکہ دوسری محفل میں دعا میں شریک ہوئے۔ چند روز قبل کی بات ہے کہ گھر کے کسی فرد نے ان کے کمرہ میں دیوار پر ایک خوبصورت منظر کی سینری لگائی، کہنے لگے کہ ایک سینری اور بناؤ جس میں خوبصورت مکان ہو جس کے نیچے دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوں اور انگوروں کے خوشے مکان کے اندر کی طرف جھکے ہوئے ہوں، عید سے پہلے لگا دو میں عید کے روز اسے دیکھوں گا۔ انتیس رمضان المبارک کو دوپہر کے وقت تکلیف محسوس ہوئی، گھر والوں کے کہنے پر بھی روزہ کھولنے پر تیار نہ ہوئے، تکلیف بڑھ گئی، ڈاکٹر صاحب آئے جنہوں نے گولی زبان کے نیچے رکھی، اس دوران استغفار کی دعائیں پڑھتے رہے اور کم و بیش نصف پون گھنٹہ کی اس کشمکش کے بعد خاموش ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔