ایک پہلو یہ ہے کہ دعا کیسے قبول ہوتی ہے؟ ایک یہ ہے کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی؟ اس پر میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
یہ سوال ہوا تھا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، مستجاب الدعوات تھے اور ان کے بارے میں مشہور بھی تھا اور مشاہدہ بھی تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات کبھی خالی نہیں گئی، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اکابر صحابہؓ میں سے ہیں۔ تو کسی نے پوچھ لیا کہ حضرت! یہ مقام آپ نے کیسے حاصل کیا کہ آپ کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات کبھی خالی نہیں ہوئی اور لوگوں کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ آپ ان کے حق میں کوئی جملہ کہہ دیں جو اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو جائے، تو دعا کی قبولیت کی وجہ کیا ہے؟ تو انہوں نے ایک بات فرمائی تھی کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے اس وقت سے لے کر آج تک، جب یہ بیان فرما رہے ہیں تقریباً نصف صدی درمیان میں ہے، فرماتے ہیں کہ میرے اس حلق سے ایک لقمہ بھی ایسا نہیں اترا میں جس کے بارے میں نہیں جانتا کہ کہاں سے آیا ہے اور کیسے آیا ہے۔ حلال روزی، یہ تو ہے دعا قبول کیسے ہوتی ہے، جتنا انسان کا جسم پاک ہو گا، حلال پر مبنی ہو گا، انسان کی خوراک پاک ہو گی اتنی دعا کی قبولیت کی تاثیر ہو گی۔
اور دوسرا پہلو کہ دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی آتا ہے غبار آلود میلے کپڑے، دور دراز سے سفر کر کے، بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر دعا مانگتا ہے یا اللہ! یہ کہ، وہ کر۔ فرمایا ’’ملبسہ حرام و مشربہ حرام و مطعمہ حرام‘‘ اس کا لباس حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا کھانا حرام کا ہے۔ ’’انا یستجاب لہ‘‘ اس کی دعا کہاں سے قبول ہو گی؟ یہ دونوں پہلو کہ دعا قبول کیسے ہوتی ہے اور کیوں نہیں ہوتی یہ جناب نبی کریمؐ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے حوالے سے میں نے عرض کیا ہے اکلِ حلال جس قدر ہو گا دعا کی قبولیت کے قریب جائے گا۔
دعا کا دوسرے کو کہنا یہ بھی سنت ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ حضورؐ سے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے ’’ادع لنا یا رسول اللہ‘‘۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی، حضرت عمرؓ عمرے پر جا رہے تھے، فرمایا ’’ لا تنسنا يا أخي من دعائك‘‘ عمرے پر جا رہے ہو ہمیں دعا میں نہ بھولنا۔ ایک دوسرے کو دعا کے لیے کہنا یہ بھی سنت ہے۔ دینا تو اللہ نے ہی ہے، اللہ سے ہی مانگنا ہے۔ لیکن اگر کسی زندہ بزرگ کو درخواست کی جائے، بہت سے واقعات ہیں جن کے پیچھے دعا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی ہوں میرے پیچھے حضورؐ کی دعا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی ہوں میرے پیچھے حضورؐ کی دعا ہے۔
سوال یہ تھا کہ جب سب کچھ تقدیر میں لکھا ہوا ہے تو پھر دعا کا مطلب کیا ہے؟ حضورؐ کے پاس لوگ سوال لے کر آتے تھے، کسی چیز کی ضرورت ہے تو آ کر خدمت میں عرض کرتے تھے، تو ایک دن جناب نبی کریمؐ نے اپنی مجلس کے شرکاء سے کہا کہ باہر کوئی آدمی آتا ہے سوال کرتا ہے تو تم سفارش کیا کرو، ہونا تو وہی ہے جو اللہ نے مجھ سے کروانا ہے، تم سفارش کے ثواب سے کیوں محروم ہوتے ہو؟ دعا کی اپنی برکات ہیں۔