اسلام میں سوشل ورک کی اہمیت

   
۱۷ جنوری ۱۹۹۹ء

(اس سال ۲۹ رمضان المبارک کو ضلع سیالکوٹ کے قصبہ کنڈن سیان میں نوجوانوں کی ایک رفاہی تنظیم ’’سوشل ویلفیئر سوسائٹی‘‘ نے افطار پارٹی کے عنوان سے تقریب منعقد کی جس میں علاقہ بھر سے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ حضرات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی تھے اور انہوں نے اس موقع پر ’’اسلام میں سوشل ورک کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا، ان کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سب سے پہلے سوشل ویلفیئر سوسائٹی کنڈن سیان کے نوجوانوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا اور آپ حضرات سے ملاقات اور گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں اور کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

سوشل ورک یا انسانی خدمت اور معاشرہ کے غریب و نادار لوگوں کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہے اور اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے۔ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے اور آپؐ نے دکھی انسانیت کی خدمت اور نادار لوگوں کا ہاتھ بٹانے کا بڑا اجر و ثواب بیان فرمایا ہے۔ حتیٰ کہ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ آقائے نامدارؐ پر وحی نازل ہونے کے بعد آپؐ کا پہلا تعارف ہمارے سامنے اسی حوالہ سے آیا ہے کہ آپؐ نادار اور مستحق لوگوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ آنحضرتؐ کا معمول یہ تھا کہ چند دن کی خوراک اور پانی لے کر غارِ حرا میں چلے جاتے تھے اور سب لوگوں سے الگ تھلگ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف رہتے تھے۔ ایک دن وہیں غار میں وحی کے آغاز کا واقعہ پیش آگیا، حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو قرآن کریم کی پہلی آیات سنائیں۔ اس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ آپ نے کئی بار سن رکھا ہوگا اور آپ کے ذہن میں ہوگا۔ اچانک یہ واقعہ ہوا، اس سے قبل اس قسم کی بات کبھی نہیں ہوئی تھی اس لیے جناب نبی کریمؐ پر گھبراہٹ کا طاری ہونا فطری بات تھی۔

آپؐ گھر تشریف لائے، چادر اوڑھی اور لیٹ گئے۔ اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا دانا و بینا خاتون تھیں، پریشانی بھانپ گئیں، پوچھا تو آنحضرتؐ نے سارا واقعہ بیان کر دیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ’’خشیت علیٰ نفسی‘‘ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگ رہا ہے۔ اس پر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو غمزدہ نہیں کرے گا۔ اور انہوں نے اپنے دعویٰ پر جو دلیل دی وہ یہ تھی کہ ’’آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں، لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘ گویا ام المؤمنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ جو لوگ انسانی سوسائٹی میں دوسروں کے کام آنے والے ہوں اللہ تعالیٰ انہیں غمزدہ اور پریشان نہیں کیا کرتا۔

اس طرح پہلی وحی نازل ہونے کے بعد احادیث کے ذخیرہ میں نبی کریمؐ کا جو سب سے پہلا تعارف ہمارے سامنے آتا ہے وہ ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؐ بہت بڑے سوشل ورکر تھے اور دکھی انسانیت کی خدمت آپؐ کی سب سے پہلی سنتِ مبارکہ ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کے سب سے بڑے ساتھی اور خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا تعارف بھی احادیث میں انہی الفاظ کے ساتھ ملتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں آنحضرتؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کے خلاف قریش کے مظالم انتہا کو پہنچ گئے اور انہیں مزید برداشت کرنے کی تاب نہ رہی تو بہت سے صحابہ کرامؓ حضورؐ سے اجازت لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے جن میں حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت جعفر طیارؓ بھی تھے۔ انہی دنوں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ بھی اس قسم کی صورتحال پیش آئی کہ آپ اپنے گھر کے صحن میں قرآن کریم پڑھا کرتے تھے اور اردگرد کے بچے اور عورتیں اسے سننے کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔ اس پر محلہ کے بڑے لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کو منع کر دیا کہ اگر قرآن کریم پڑھنا ہو تو کمرے میں بند ہو کر پڑھیں کھلے صحن میں نہ پڑھا کریں کیونکہ اس سے ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ اس سے دلبرداشتہ ہو کر آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہجرت کی اجازت چاہی کہ جہاں اپنے گھر کے صحن میں بھی قرآن کریم پڑھنے کی اجازت نہ ہو وہاں رہنے کا کیا فائدہ ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر سے ضروری سامان اٹھا کر ہجرت کے ارادے سے مکہ مکرمہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں قبیلہ بنو قارہ کا سردار ابن الدغنہ ملا، اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ حضرت صدیق اکبرؓ نے جواب دیا کہ اب ظلم و صبر کی انتہا ہوگئی ہے اور میں ہجرت کے ارادے سے شہر چھوڑ کر کہیں اور جا رہا ہوں۔ اس کافر سردار نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا اور میں آپ کو جانے نہیں دوں گا۔ اس موقع پر اس نے کہا کہ آپ جیسے شخص کا شہر سے چلے جانا شہر کے لوگوں کے لیے اچھی علامت نہیں ہے اور پھر حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں وہی بات کہی جو ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے غار حرا سے واپسی پر جناب نبی اکرمؐ سے کہی تھی کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کے کام آتے ہیں، معذوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ چنانچہ کافروں کے قبیلہ بنو قارہ کا سردار ابن الدغنہ حضرت ابوبکرؓ کو اپنے ساتھ واپس مکہ لے آیا اور خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ابوبکرؓ آج کے بعد میری امان میں ہیں کوئی ان کو تنگ نہ کرے۔

گویا جناب رسول اکرمؐ اور ان کے ساتھ خلیفہ حضرت ابوبکرؓ دونوں کا مزاج و طبیعت ایک تھے اور دونوں کی عادات و اخلاق یکساں تھے۔ اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام میں نبوت اور خلافت دونوں کا مزاج ’’سوشل ورک‘‘ کا مزاج ہے اور دونوں کی معاشرتی بنیاد سماجی خدمت پر ہے۔ اس حوالہ سے میں نوجوانوں سے بطور خاص عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسابقت، معاصرت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ فطری جذبہ ہے اور اسلام نے انسان کے کسی فطری جذبے کی نفی نہیں کی اور کسی طبعی ضرورت سے انکار نہیں کیا۔ البتہ ہر جذبہ اور ضرورت کا رخ متعین کر دیا ہے اور اسے منفی کی بجائے مثبت میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ آج کل ہمارے ہاں بھی مسابقت کا جذبہ کار فرما ہے لیکن اس کا میدان اور ہے۔ اس کا اظہار دولت کے جمع کرنے میں ہوتا ہے، بلڈنگوں کی تعمیر میں ہوتا ہے، اقتدار کے حصول میں ہوتا ہے اور جماعتوں، گروہوں اور جتھوں کے قیام میں ہوتا ہے۔ جبکہ یہی مسابقت کا جذبہ صحابہ کرامؓ میں تھا تو اس کا میدان اور تھا۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے جس سے کوئی انسان خالی نہیں ہے مگر اس کا صحیح میدان وہ ہے جو صحابہ کرامؓ نے پیش کیا۔

حدیث میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات آسمان صاف تھا، چاند نہیں تھا، ستارے ہر طرف جگمگا رہے تھے، ان گنت ستاروں کا ہجوم دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں کہ کیا کوئی خوش نصیب انسان ایسا بھی ہے جس کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کی طرح ان گنت ہوں۔ فرماتی ہیں کہ جی میں یہ تھا کہ اس سوال کے جواب میں میرے والد محترم (حضرت ابوبکرؓ) کا نام ہی آ سکتا ہے لیکن حضورؐ سے یہ سوال کیا تو آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ ہاں ایسا خوش نصیب شخص ہے اور وہ عمر بن الخطابؓ ہے۔ حضرت عائشہؓ توقع کے خلاف جواب سن کر چونک اٹھیں اور بے ساختہ دوسرا سوال کر دیا کہ ’’و ابی یا رسول اللہ؟‘‘ اللہ کے رسول میرے والد محترم کہاں گئے؟ اس پر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ عائشہؓ! تم ابوبکرؓ کی نیکیوں کی بات کرتی ہو، بخدا عمرؓ کی ساری زندگی کی نیکیاں ایک طرف مگر ابوبکرؓ کی غار کی رات والی نیکی ان سب پر بھاری ہے جو انہوں نے ہجرت میں میرے ساتھ وقت گزارا۔

چنانچہ حضرات صحابہ کرامؓ میں مقابلہ اور مسابقت کا میدان نیکیوں کا تھا اور وہ اس میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ساری زندگی یہ حسرت رہی کہ نیکیوں میں حضرت ابوبکرؓ سے آگے بڑھوں مگر دو واقعات نے مجھے اس حسرت کے پورا ہونے سے مایوس کر دیا اور میرے دل نے گواہی دی کہ اس شیخ سے آگے بڑھنا میرے بس میں نہیں ہے۔ ایک واقعہ تبوک کے غزوہ کا بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریمؐ نے غزوہ کے لیے صحابہ کرامؓ سے زیادہ سے زیادہ چندہ لانے کے لیے کہا تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ان دنوں میری حالت حضرت ابوبکرؓ سے اچھی تھی اور میں خوش تھا کہ آج میں سبقت حاصل کر لوں گا۔ چنانچہ خوشی خوشی گھر گیا اور جو کچھ بھی گھر میں موجود تھا، نقدی، سامان، غلہ، کھجوریں وغیرہ سب آدھا آدھا کیا۔ نصف سامان گھر میں چھوڑا اور نصف سامان باندھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ادھر سے حضرت ابوبکرؓ بھی ایک گٹھڑی اٹھائے آگئے۔ آنحضرتؐ نے پوچھا کہ آپ کیا لائے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے بتایا کہ جو کچھ گھر میں تھا نصف نصف کر کے آدھا گھر میں چھوڑ آیا ہوں اور آدھا آپؐ کی خدمت میں لے آیا ہوں۔ اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! جو کچھ گھر میں تھا اٹھا کر لے آیا ہوں اور گھر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے نام کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میرے دل میں چوٹ سی لگی اور دل نے گواہی دی کہ عمرؓ! اس شیخ سے نیکی میں آگے بڑھنا مشکل ہے۔

دوسرا واقعہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے دور کا بیان کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا کہنا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک ضعیف اور بے سہارا خاتون تھی، ایک کٹیا میں رہتی تھی اور انتہائی ضعیف اور نابینا تھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ اس خاتون کی تھوڑی بہت خدمت کرنی چاہیے۔ ایک روز صبح نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر اس خیال سے کٹیا کی طرف گیا کہ اس بڑھیا کی کٹیا کی صفائی کر دوں گا، پانی کا برتن بھر کر رکھ دوں گا اور کچھ کھانے پینے کی چیز دے آؤں گا۔ وہاں پہنچا، بڑھیا سے سلام عرض کیا اور کہا کہ میں مدینہ منورہ کا باشندہ ہوں اور اس خیال سے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ بیٹا تم سے پہلے ایک شخص آیا تھا، وہ روزانہ آتا ہے اور یہ سارے کام کر جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اگلے روز میں ذرا جلدی گیا تاکہ یہ دیکھوں کہ وہ شخص کون ہے؟ دیکھا کہ ایک شخص منہ لپیٹے ہوئے پانی کا گھڑا بڑھیا کی کٹیا میں رکھ کر باہر آرہا ہے۔ قریب ہو کر معلوم کیا تو وہ خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے جو صبح سویرے مدینہ منورہ کی ایک بے سہارا، معذور اور ضعیف بڑھیا کی خدمت گزاری کے فرض سے عہدہ برآ ہو رہے تھے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس روز تو میرے دل نے یہ فیصلہ دے دیا کہ یہ مقابلہ میرے بس کی بات نہیں اور اس شیخ سے نیکیوں میں آگے بڑھنا ممکن ہی نہیں ہے۔

میں سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ باہم مقابلہ اور مسابقت کا اصل میدان یہ ہے۔ اس لیے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور معاشرہ کے نادار اور بے سہارا لوگوں کی بڑھ چڑھ کر خدمت کریں۔ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔ ابھی مجھ سے پہلے ایک نوجوان نے خطاب کرتے ہوئے یہ ذکر کیا ہے کہ سوشل ورک کا سب سے بڑا کام لوگوں کو گمراہی سے نکالنا ہے اور ہدایت کے راستے پر لانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ جناب نبی اکرمؐ کا سب سے بڑا مشن یہی تھا کہ نسل انسانی کو راہ راست پر لایا جائے اور جہنم سے انسانوں کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم میں حضورؐ کی اس خواہش کو ’’حرص‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جو کسی خواہش کا آخری اور انتہائی درجہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’حریص علیکم‘‘ نبی اکرمؐ تمہارے ایمان لانے اور ہدایت پانے پر حریص ہیں۔ اور خود آنحضرتؐ نے اپنی مثال یوں دی ہے کہ جیسے اندھوں کا ایک بڑا گروہ ایک طرف کو جا رہا ہو اور ادھر بہت بڑا گڑھا ہو جس میں آگ جل رہی ہو جبکہ ایک بینا شخص اس منظر کو دیکھ رہا ہو، اب اس سے برداشت نہیں ہوگا اور وہ آوازیں دے گا، شور مچائے گا اور قریب آکر ان اندھوں کو گڑھے کی طرف جانے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے، تم لوگوں کو جہنم کا گڑھا نظر نہیں آرہا اور تم سب اس کی طرف بھاگے جا رہے ہو، مجھے وہ گڑھا دکھائی دے رہا ہے اور تمہارا اس کی طرف دوڑے چلے جانا بھی نظر آرہا ہے اس لیے میں تمہیں آوازیں دے رہا ہوں اور میری ہر ممکن کوشش ہے کہ کوئی شخص اس گڑھے میں نہ گرنے پائے۔

البتہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور اس کا تکوینی فیصلہ ہے کہ ہدایت دینے کا اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے کہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے نہ دے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہدایت کا یہ اختیار اللہ تعالیٰ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا تو حضور علیہ السلام کے زمانے کا تو کوئی ایک انسان بھی جہنم میں نہ جاتا اور آپؐ کم از کم اپنے دور کے ہر انسان کو ہدایت کے دائرے میں ضرور لے آتے۔ اس لیے میں نوجوانوں سے عرض کرتا ہوں کہ لوگوں کی راہنمائی کرنا، انہیں ایمان کے راستے پر لانا، کفر اور گمراہی سے بچانا اور نیک اعمال کی ترغیب دے کر اچھے مسلمان بنانا بھی جناب رسول اکرمؐ کا مشن ہے، اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنا، نادار لوگوں کے کام آنا، لوگوں کی مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بننا بھی سنت نبویؐ ہے۔ یہ سب سوشل ویلفیئر کے کام ہیں اور ان میں سے جس شعبہ میں بھی موقع مل جائے اس میں کام کرنا ہم سب کے لیے سعادت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter