قومی نظام تعلیم میں ایک طرف دینی و عصری تعلیمی نظاموں کو ’’یکساں نصاب تعلیم‘‘ کے عنوان سے کانٹ چھانٹ کے وسیع تر عمل سے گزارا جا رہا ہے، دوسری طرف اوقاف کے نئے قوانین کے ذریعہ مسجد و مدرسہ کی آزادی کو محدود تر کرنے کا عمل جاری ہے، جبکہ تیسری طرف اس وقت ملک کے رائج ریاستی نظام تعلیم کے نظریاتی پہلو کو کمزور کرنے اور نصابِ تعلیم سے اسلامی مواد کو کم سے کم کرنے کے اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب میں اسلامیات کے علاوہ باقی مضامین سے حمد و نعت، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر دینی موضوعات پر موجود اسلامی مواد کو خارج کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ اس صورتحال میں ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ پاکستان‘‘ کے مقتدر راہنماؤں کا درج ذیل تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’جامعہ دار العلوم کراچی کے نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے مرکزی قائدین حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ساجد میر، مولانا عبد المالک، علامہ سید ریاض حسین نجفی، مولانا محمد حنیف جالندھری، صاحبزادہ عبد المصطفیٰ ہزاروی، مولانا محمد یٰسین ظفر، ڈاکٹر مولانا عطاء الرحمن ، مولانا محمد افضل حیدری نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ:
حال ہی میں سپریم کورٹ کے قائم کردہ ون مین کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے، پھر اس کی متابعت (Follow up) میں پنجاب ہیومن رائٹس اینڈ مائنارٹی افیئرز ڈیپارٹمنٹ نے پنجاب کریکولم ٹیکسٹ بورڈ کو ہدایت جاری کی ہے کہ اسلامیات کے علاوہ دیگر مضامین کی نصابی کتب میں حمد، نعت، سیرت النبی اور دیگر دینی موضوعات پر مواد کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے، اور پنجاب ہیومن رائٹس کمیشن نے پنجاب کریکولم ٹیکسٹ بورڈ کو یہ ہدایات بھی جاری کر دی ہیں کہ اسلامیات کے علاوہ دیگر مضامین کی نصابی کتب سے اسلام کی ان ساری علامات کو نکال دیا ہے۔ یہ ون مین کمیشن کی طرف سے اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور اپنی انفرادی رائے مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ ملک کے نمائندہ قومی اقلیتی کمیشن نے جس میں تمام مذاہب کی نمائندگی ہے اس ون مین کمیشن کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، بلکہ اس کی اس انفرادی رائے کی پرزور مخالفت کی ہے کہ نصاب میں ایسی تبدیلی کی جائے۔ اقلیتیں چاہیں تو اسلامیات کے مضمون کے متبادل اپنے طلبہ و طالبات کے لیے اپنے مذہبی اخلاقیات و تعلیمات پر مشتمل نصابی کتابیں مرتب کر کے نصاب میں شامل کرا سکتے ہیں، لیکن انہیں یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پچانوے تا ستانوے فیصد تک آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، دو تین فیصد آبادی پر مشتمل طبقہ پورے نظامِ تعلیم کو ڈکٹیٹ کرے، یہ جمہوری اقدار اور اکثریت کے مذہبی حقوق کے خلاف ہے۔ کیا مشنری اداروں اور اشرافیہ کے لیے قائم جدید ترین تعلیمی اداروں کے نصاب کا کسی نے اس جہت سے جائزہ لیا ہے، ان کا تجزیہ کیا ہے؟ کیا سنگاپور، ہانگ کانگ، برطانیہ اور امریکا وغیرہ سے درآمد نصابی کتب کا کسی نے تفصیلی جائزہ لیا ہے، ان پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے؟ اگر ہمارے حکمرانوں کی یہی روش رہی تو اس ملک میں دینی و مذہبی حقوق کے اعتبار سے پچانوے تا ستانوے فیصد مسلم آبادی اقلیت بن کر رہ جائے گی۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کمیشن کی تشکیل کو متوازن نہیں بنایا تاکہ ایسی تجاویز سامنے آئیں جو سب کے لیے کسی نہ کسی درجے میں قابل قبول ہوتیں۔ ہم پنجاب حکومت، پنجاب مائنارٹی افیئر ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب کریکولم ٹیکسٹ بورڈ (PCTB) کو متنبہ کرتے ہیں کہ کسی ایسے اقدام سے پہلے اس بارے میں تمام طبقات کی آراء طلب کی جائیں، صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیاں ان پر عمیق نظر سے غور و فکر کریں تاکہ ملک میں انتشار پیدا نہ ہو۔ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں، انہیں تمام آئینی اور قانونی حقوق حاصل ہیں، لیکن ان کو بھی غالب ترین اکثریت کے دینی اور مذہبی جذبات کا پاس رکھنا ہو گا۔
اگر یہ پالیسی جاری رہی تو ایک وقت آئے گا کہ یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ تحریک پاکستان، متحدہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور قیام پاکستان کے اسباب اور تاریخ پاکستان کو ہمارے قومی نصاب سے خارج کر دیا جائے، کیونکہ یہ دو قومی نظریے پر مبنی ہے اور اس سے اقلیتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ نیز آگے چل کر یہ مطالبہ بھی آسکتا ہے کہ دستور پاکستان سے قرآن و سنت کی بالادستی اور دیگر آرٹیکلز کو نکالا جائے۔ اگر روزِ اول سے اس سازش کا سدباب نہ کیا گیا تو آگے چل کر یہ اقدامات بڑے پیمانے پر ملک میں انتشار کا باعث بنیں گے، جبکہ ملک پہلے ہی سیاسی انتشار کی زد میں ہے، اس لئے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ شروع ہی سے اس کا سدّباب کیا جائے۔‘‘
اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے راہنماؤں نے پنجاب کے نصاب تعلیم میں اس تبدیلی کا بروقت نوٹس لے کر ایک اہم اور سنگین مسئلہ کی نشاندہی کی ہے جس پر تمام دینی و قومی حلقوں کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ ہم یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ اس نوعیت کے جزوی اقدامات پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے ریاستی نظام و نصاب میں گزشتہ کچھ عرصہ سے مسلسل جاری اقدامات اور تبدیلیوں کا مجموعی طور پر جائزہ لینے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریہ قیام اور دستور کو سامنے رکھتے ہوئے جامع رپورٹ اور موقف پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ اس کی بنیاد پر رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔ ہمارے خیال میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کو ایک باضابطہ قومی تعلیمی کمیشن تشکیل دے کر قوم کی راہنمائی کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ اس طرح بین الاقوامی اداروں اور سیکولر این جی اوز کے دباؤ پر ابہام، بے خبری اور عدم دلچسپی کے ماحول میں پاکستان کو سیکولر ریاست اور نظام تعلیم کو سیکولر نظام تعلیم بنانے کے لیے کوشاں بین الاقوامی اور قومی حلقے اپنا کام کر گزریں گے اور ہمارے ہاتھ میں رسمی احتجاج، بیانات اور قراردادوں کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا۔ خدا کرے کہ اس نازک اور سنگین مرحلہ میں ہماری دینی قیادتیں قوم کا قبلہ صحیح رُخ پر رکھنے کی ذمہ داری سے سرخرو ہوں، آمین یا رب العالمین۔