رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس مقدس مہینہ کی برکتوں اور رحمتوں سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں:
- یہ قرآن کریم کا مہینہ ہے، اس میں قرآن کریم کی تلاوت اور سماع کی عجیب بہار ہوتی ہے اور پوری دنیا میں چوبیس گھنٹے اس کی آواز گونجتی رہتی ہے۔
- یہ روزوں کا مبارک مہینہ ہے جس میں مسلمان صبح سے شام تک اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کھانا پینا ترک کر کے برکتوں کے حصول اور نفس کے تزکیہ کا سامان کرتے ہیں۔
- اور یہ سخاوت اور صدقہ و خیرات کا مہینہ ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال سخی ہوتے تھے اور آپ کے دروازے سے کوئی ضرورتمند خالی نہیں جاتا تھا، مگر رمضان المبارک میں آپ کی سخاوت کا ماحول ایسا ہو جاتا تھا جیسے شدید گرم موسم میں ٹھنڈی ہوا کی لہر چھا گئی ہو۔
- اس ماہ مبارک اور اس کی فضیلت و برکت کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت آج بھی قابل رشک ہے اور کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں میں کسی اور مذہب کے پیروکار اس معاملہ میں مسلمانوں کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
- اس مبارک مہینے میں مسلمان روحانی طور پر ’’ری چارج‘‘ ہو کر اگلے سال کے معمولات کے لیے تازہ دم ہو جاتے ہیں اور زندگی کا یہ نظام اسی تسلسل کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔
- ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ ’’الصوم لی وانا اجزی بہ‘‘ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا اجر اپنی مرضی سے دوں گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ روزہ واحد عبادت ہے جس کا زبان سے اظہار نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اس کا علم نہیں ہوتا، اس لیے اس میں ریاکاری کا احتمال سب سے کم ہے، اس وجہ سے اس کا اجر و ثواب نہ صرف یہ کہ زیادہ ہے بلکہ اس ماہِ مبارک میں دوسری عبادات اور اعمالِ خیر کا اجر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
- یہ تقویٰ اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے جس میں مسلمان کو اپنے گناہوں کے دھونے اور نفس کی صفائی و طہارت کا موقع ملتا ہے اور اصحابِ ذوق اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
- اور یہ صبر و استقامت کے ساتھ شکرگزاری کا مہینہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں پر مسلمانوں کو اپنے رب کی کسی نہ کسی طرح شکرگزاری کا ماحول مل جاتا ہے۔
یہ سب رمضان المبارک کی برکات ہیں اور اس کا فیض ہے مگر اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے یوں فرمایا ہے ’’لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا لیکن اگر ناشکری کی تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہو گا۔ جس کی سنگین ترین صورت قرآن کریم میں ہی ان الفاظ میں مذکور ہے کہ ’’لا تکونوا کالذین نسوا اللّٰہ فانساھم انفسھم‘‘ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا۔
آج ہم مسلمان پوری دنیا میں جس صورتحال سے دوچار ہیں، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ خدانخواستہ ہم اس کیفیت سے دوچار ہو گئے ہیں، اپنے نفع نقصان سے بے خبر ہو جانا اور سود و زیاں سے غافل ہو جانا خدائی عذاب کی سب سے سنگین صورت ہے۔ اور آج ملتِ اسلامیہ اسی ماحول میں غیروں کی دریوزہ گر ہو کر باہم دست و گریبان ہے۔ اس لیے آج ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ذاتی گناہوں سے توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ ملِّی اور اجتماعی طور پر بھی توبہ و استغفار کا اہتمام کریں، اور رمضان المبارک کو دین کی طرف امت کی اجتماعی واپسی کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔