افغانستان میں طویل جنگ کا ایک نیا دور

   
دسمبر ۲۰۰۱ء

افغانستان میں امریکی اتحاد کی وحشیانہ بمباری بدستور جاری ہے اور اس بمباری کی مدد سے شمالی اتحاد نے کابل، ہرات اور مزار شریف سمیت بہت سے شہروں کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جبکہ قندوز میں محصور طالبان پر بمباری ہو رہی ہے اور قندھار ملحقہ علاقوں سمیت طالبان کے قبضے میں ہے۔

طالبان کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہری آبادی کو امریکی بمباری سے بچانے اور اپنی جنگی حکمتِ عملی کو نیا رخ دینے کے لیے کابل اور دیگر شہر خالی کیے ہیں، امریکی اتحاد سے شکست قبول کرنے کی بجائے نئی حکمتِ عملی کے تحت طویل جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اور افغانستان سے امریکی تسلط کے خاتمہ تک ان کی جدوجہد جاری رہے گی۔

حالات نے اب تک جو رخ اختیار کیا ہے اس کے پیشِ نظر افغانستان میں مستقبل کے حوالے سے دو امکانات دکھائی دے رہے ہیں:

  1. ایک یہ کہ طالبان قندھار اور جنوبی افغانستان کے چند دیگر علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے میں اگر کامیاب رہے تو افغانستان ’’جنوبی افغانستان‘‘ اور ’’شمالی افغانستان‘‘ کے ناموں سے دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اسی طرح جیسے امریکی مداخلت سے کوریا اور ویتنام جنوبی اور شمالی حصوں میں تقسیم ہو گئے تھے، جس کے بعد ویتنام تو طویل گوریلا جنگ کے نتیجے میں امریکی تسلط سے نجات حاصل کر کے دوبارہ متحد ہو گیا، مگر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی تقسیم ابھی تک قائم ہے۔ قندھار پر طالبان کا کنٹرول قائم رکھنے کی صورت میں افغانستان کی یہ تقسیم نمایاں ہوتی نظر آ رہی ہے۔ سرِدست یہی ہو گا اور اس کے بعد اگر طالبان شمالی افغانستان کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف گوریلا جنگ جاری رکھ سکے تو ویتنام کی طرح جانگسل لڑائی کے بعد افغانستان کے دوبارہ متحد ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
  2. اور اگر خدانخواستہ قندھار بھی طالبان کے ہاتھ سے نکل گیا اور طالبان نے شکست قبول نہ کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ قائم رکھا تو پھروہی صورت عود کر آئے گی جو کابل میں روسی فوجوں کی آمد کے وقت تھی کہ کابل پر روس نواز ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت تھی، جس کے کنٹرول میں کابل اور دیگر شہر تھے۔ جبکہ افغان مجاہدین شہروں سے باہر پہاڑوں پر مورچے بنا کر گوریلا کاروائیاں کر رہے تھے، اور انہی گوریلا کاروائیوں کے نتیجے میں انہوں نے نہ صرف روس کو فوجیں واپس بلانے پر مجبور کر دیا تھا بلکہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد کابل میں روس نواز حکومت بھی اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکی تھی۔

بہرحال جو صورت بھی ہو افغانستان ایک نئی اور طویل جنگ کے دور میں داخل ہو رہا ہے، جس میں ایک طرف امریکہ اور روس سمیت کم و بیش سبھی بڑے ممالک ہیں، اور مسلم حکومتوں کی مجموعی طاقت بھی انہیں کے ساتھ ہے، جبکہ دوسری طرف طالبان ہیں جنہیں عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کی حمایت و تعاون حاصل ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ اگر طالبان اپنے موقف اور عزم پر قائم رہے تو وقتی پسپائی کا یہ عرصہ زیادہ طویل نہیں ہو گا اور افغانستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر اپنا تشخص باقی رکھنے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ نظریہ اور عقیدہ کی جنگوں میں پلاسی، سرنگا پٹم، بالاکوٹ اور ۱۸۵۷ء کے مراحل آیا کرتے ہیں، اور ان آزمائشوں سے گزر کر اپنے مشن اور پروگرام پر قائم رہنے والی قومیں بالآخر آزادی کی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہو جایا کرتی ہیں، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter