روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۲۱ جولائی ۲۰۰۱ء کی خبر کے مطابق صدر مملکت جنرل پرویز مشرف گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس کے دوران انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر کے بھارت میں کردار کے بارے میں جذباتی ہو گئے۔ ان سے جب کہا گیا کہ عاصمہ جہانگیر آگرہ سمٹ کے دوران بھارت میں تھیں جہاں وہ اپنے ہی ملک کے خلاف پراپیگنڈے میں مصروف رہیں۔ تو صدر مملکت کچھ سوچ میں پڑ گئے اور انہوں نے کہا کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہیں؟ ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو باہر جا کر اپنے ملک کی عزت کو بھول جائے؟ وہ اس بارے میں بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر اس وقت کہہ نہیں سکتے۔ اس کے بعد جب صدر سے دوسرا سوال ہوا تو انہوں نے سوال کرنے والے صحافی سے کہا کہ وہ پچھلے سوال پر بہت جذباتی ہو گئے تھے لہٰذا وہ اس سوال کو سمجھ نہیں سکے۔
اس خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر پرویز مشرف بیگم عاصمہ جہانگیر اور انسانی حقوق کے اس قماش کے دیگر علمبرداروں کی بیرون ملک سرگرمیوں اور ان کی سنگینی سے بخوبی آگاہ ہیں، اور یہ لوگ باہر ملکوں میں جا کر پاکستان کے خلاف جو زہرفشانی کرتے رہتے ہیں وہ اس سے بے خبر نہیں ہیں۔
- بیگم عاصمہ جہانگیر لاہور ہائیکورٹ کی وکیل ہیں اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی چیئر مین ہیں۔ ان کے شوہر ملک جہانگیر ایڈووکیٹ قادیانی ہیں، اور عاصمہ جہانگیر اس بات کو اخباری بیانات میں تسلیم کرتے ہوئے کئی بار یہ کہہ چکی ہیں کہ وہ ایک قادیانی کی بیوی ہونے میں کوئی حرج نہیں سمجھتیں۔
- عاصمہ جہانگیر اور ان کا انسانی حقوق کمیشن ایک عرصہ سے پاکستان کے اسلامی تشخص، دستور کی اسلامی دفعات، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے، حدود و قصاص کے شرعی قوانین، توہینِ رسالت کی شرعی سزا، اور دیگر اسلامی قوانین و احکام کے خلاف مسلسل سرگرمِ عمل ہیں، اور اس کمیشن کا سب سے بڑا ہدف پاکستان کو سیکولر ریاست کی حیثیت دینا ہے۔
- عاصمہ جہانگیر اور ان کے رفقاء پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے خلاف بھی سرگرمِ عمل رہے ہیں،
- اور پاکستان کے بھارت کے ساتھ تنازعات میں پاکستان کے موقف اور مفادات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے انسانی حقوق کے یہ نام نہاد علمبردار امن اور مفاہمت کے نام پر مجاہدینِ کشمیر اور پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔
ان حالات میں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر صدر پرویز مشرف ان لوگوں کی اس قسم کی سرگرمیوں سے باخبر ہیں تو انہیں صرف ’’کیا کہا جا سکتا ہے‘‘ پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسے افراد اور حلقوں کے بارے میں کچھ کہنا اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ کرنا بھی چاہیے۔ جن لوگوں کی اسلام دشمنی اور وطن دشمنی اس حد تک واضح ہو چکی ہو اُن کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا کسی طرح بھی قابلِ فہم اور مناسب بات نہیں ہے۔