روزنامہ خبریں لاہور نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کی اشاعت میں امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک ٹیم آثار قدیمہ کی تحقیق کے نام پر اس تصور کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ توراۃ اور دیگر مذہبی کتابوں میں جن مقدس شخصیات اور واقعات کا تذکرہ موجود ہے، ممکن ہے وہ فرضی کردار ہوں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہ ہو۔
خدا، مذہب اور آسمانی تعلیمات کو انسانی زندگی سے نکال دینے کے لیے جو فکری کشمکش گزشتہ تین سو برس سے مسلسل جاری ہے، اس میں یہودیوں کے علاوہ مذہب سے برگشتہ عیسائی دانشور بھی پیش پیش ہیں، مگر یہودی دانشوروں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اور عیسائی قومیں اپنے معتقدات و مسلّمات سے لاتعلق ہو جائیں تاکہ انہیں مزعومہ صہیونی سلطنت کے وفادار شہری بنانے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئے۔ یورپی معاشرہ کو خدا اور مذہب کے تصور سے بیگانہ کرنے میں یہودیوں نے خاصی کامیابی حاصل کر لی ہے، اور اب مسلم معاشرہ کو مذہبی عقائد و افکار سے محروم کرنے کے لیے مختلف حربوں اور حیلوں سے فکری اور نظریاتی کام ہو رہا ہے۔
اس لیے آثارِ قدیمہ کی تحقیق کے نام پر حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعاتی وجود اور تاریخی مذہبی واقعات کی واقعیت کو مشکوک بنانے کی یہ کوشش بھی اسی مہم کا حصہ معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد مذہب اور اس کے مسلّمات کے بارے میں شکوک و شبہات کی فضا قائم کرنا ہے۔