۱۲، ۱۳، ۱۴ جولائی کو تین دن ’’مغربی روٹ‘‘ پر سفر کے دوران مختلف شہروں کے متعدد دینی اجتماعات میں شرکت اور احباب سے ملاقاتوں کا موقع ملا۔ گوجرانوالہ سے ہمارے تین عزیز ساتھی حافظ شفقت اللہ، حافظ سمیع الحق اور حافظ محمد شاہد میر رفیق سفر تھے۔ چنیوٹ میں حافظ محمد عمیر چنیوٹی کے ہاں ناشتہ کیا اور جامعہ انوار القرآن کے مہتمم مولانا قاری عبد الحمید حامد جو عمرہ کے سفر سے واپس آئے تھے ان سے ملاقات کر کے زمزم اور عجوہ کا تحفہ وصول کیا۔ اور پھر ۳ بجے کے لگ بھگ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب ملانہ پہنچے جہاں ہمارے ایک عزیز شاگرد مولانا محمد یوسف ثانی نے ایک صحبت کا اہتمام کر رکھا تھاجس میں گرد و نواح کے دیگر فضلاء نصرۃ العلوم بھی جمع تھے۔ ’’صحبت‘‘ اس علاقہ کی ایک خصوصی دعوت کا عنوان ہے جس میں ثرید اجتماعی طور پر کھائی جاتی ہے۔ پاکستان شریعت کونسل صوبہ خیبر پختون خواہ کے راہنما مولانا عبد الحفیظ محمدی بھی وہیں آئے ہوئے تھے۔
وہاں سے ہم موسیٰ زئی شریف کی طرف روانہ ہوگئے جو نقشبندی سلسلہ کا ایک بڑا روحانی مرکز ہے جس کے متعلق میری دلچسپی کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے استاذ محترم اور شیخ مکرم حضرت مولانا حسین علی قدس اللہ سرہ العزیز اسی خانقاہ کے فیض یافتہ تھے۔ موسیٰ زئی شریف جاتے ہوئے راستہ میں درابن کلاں میں حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف کلاچویؒ کے فرزند مولانا قاضی علاء الدین کے مدرسہ ’’فیض المدارس‘‘ میں حاضری دی۔ اور موسیٰ زئی شریف میں حضرت خواجہ دوست محمد قندھاریؒ اور دیگر بزرگوں کی قبروں پر دعا کی سعادت حاصل کرنے کے بعد سجادہ نشین حضرت مولانا شہاب الدین سے ملاقات کر کے ہم چودھواں پہنچ گئے۔
ہمارے سفر کی اصل منزل چودھواں ہی تھی کہ برادرم مولانا عبد القیوم حقانی کے ارشاد پر دارالعلوم عربیہ حنفیہ کے سالانہ جلسہ میں حاضری کا وعدہ کر رکھا تھا جو ہمارے بزرگوں مولانا مفتی عطاء محمدؒ ، مولانا عبد المنانؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، اور قاری محمد رفیقؒ کی یادگار ہے۔ اور یہ ادارہ مولانا مفتی محمد یونس کی محنت و کاوش سے بنین و بنات دونوں شعبوں میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ دستار بندی کے ساتھ ساتھ بخاری شریف کے افتتاحی سبق کا پروگرام بھی تھا۔ فیصل آباد کے مولانا اصغر علی نے یہ فریضہ سر انجام دیا اور اس سے دارالعلوم مذکور میں پہلی بار دورۂ حدیث کا آغاز ہوگیا۔
رات ہم واپس ملانہ آگئے، اگلے روز بدھ کو ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی مسجد امان میں مولانا عبد الحفیظ محمدی نے شہر کے سرکردہ علماء کرام کو دوپہر کے کھانے کی دعوت دے رکھی تھی۔ اس موقع پر مولانا اشرف علی، مولانا قاری خلیل احمد، مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری اور دیگر بہت سے علماء کرام کے ساتھ ملاقات و گفتگو ہوئی اور موجودہ صورتحال کے حوالہ سے علماء کرام اور پریس نمائندگان کے سامنے کچھ عمومی گزارشات بھی پیش کیں۔ حضرت مولانا فضل الرحمن، مولانا عطاء الرحمن اور مولانا لطف الرحمن کے بارے میں معلوم کیا کہ ان میں سے کوئی بزرگ موجود ہوں تو ملاقات ہو جائے مگر پتہ چلا کہ وہ تینوں اس وقت ہماری ’’دسترس‘‘ سے باہر ہیں۔ واپسی پر کندیاں شریف میں خانقاہ سراجیہ میں رات کے قیام کا پروگرام تھا۔
خانقاہ سراجیہ شریف ہمارے قومی سطح کے روحانی، دینی اور تحریکی مراکز میں سے ہے اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس اللہ سرہ العزیز کے ساتھ جماعتی اور تحریکی زندگی کا طویل عرصہ ایک کارکن کے طور پر گزارنے کی سعادت مجھے حاصل رہی ہے۔ خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد، حضرت مولانا خواجہ عزیز احمد، اور مولانا سعید احمد نے بڑی محبت اور اکرام سے نوازا۔ گزشتہ دنوں ان کی ہمشیرہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تھا اور ان کے بھائی مولانا خواجہ رشید احمد کئی ماہ سے بستر علالت پر ہیں ان کے لیے دعا کی۔ اور خانقاہ کے بعض روحانی معمولات میں شرکت کا شرف حاصل کرنے کے بعد ہم جمعرات کی صبح کو واں بھچراں کی طرف روانہ ہوگئے۔ خانقاہ سراجیہ اور واں بھچراں میں حضرت مولانا حسین علیؒ کی خانقاہ دونوں موسیٰ زئی شریف کی شاخیں ہیں اور میرا دونوں سے یکساں تعلق ہے۔ وہاں حضرت مولانا حسین علیؒ کی قبر پر دعا کے بعد ان کے پوتے محترم میاں محمد اور نواسوں میاں محمد عرفان اور میاں محمد عمران سے ملاقات کی جنہوں نے بڑی محبت اور عزت سے نوازا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے عرض کیاکہ میرا صبح نماز کے بعد دو کپ چائے کا معمول ہے۔ آج ایک کپ میں نے خانقاہ سراجیہ میں پیا ہے جبکہ دوسرا کپ واں بھچراں کی خانقاہ میں پیا ہے اور دونوں کو ملا کر میرا نصاب مکمل ہوا ہے، اسی سے آپ میرے ذوق کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
وہاں سے روانہ ہو کر ہم جوہر آباد پہنچے جہاں مدرسہ حفصہؓ للبنات میں طالبات کو افتتاحی سبق پڑھایا اور مسجد نمرہ میں ظہر کے بعد علماء کرام کے اجتماع میں چند گزارشات پیش کیں۔ مولانا فیصل احمد فاضل نصرۃ العلوم ہمارے میزبان تھے۔ ان کے ہمراہ کوہ نور شوگر مل کے عقب کی ایک آبادی میں نئی تعمیر ہونے والی ’’مسجد حسن‘‘ کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ہم ڈھڈیاں شریف کی طرف روانہ ہوگئے جو سلسلہ قادریہ کا ایک بڑا روحانی مرکز ہے اور شیخ العلماء حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کی قبر وہیں ہے۔ ان کے ساتھ حضرت مولانا عبد الوحیدؒ اور حضرت مولانا عبد الجلیلؒ بھی محو استراحت ہیں۔ اس قبرستان میں دعا کے بعد ملک کے معروف نعت خواں رانا عبد الرؤف خان کے گھر ان کی بیمار پرسی کے لیے حاضری دی اور پھر گوجرانوالہ کی طرف واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔
ہمارے رفیق سفر حافظ شفقت اللہ نے کہا کہ یہ سفر تو خانقاہوں کا ہی ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بھئی یہ نسبتیں ہی ہمارا اصل سرمایہ ہیں اور ان نسبتوں کی حیثیت ’’کنکشن‘‘ جیسی ہے۔ کیونکہ کنکشن قائم رہے تو سپلائی آتی رہتی ہے ورنہ سلنڈر کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو بالآخر خالی ہو جاتا ہے۔ میں نے ساتھیوں کو بتایا کہ میرا بیعت کا تعلق سلسلہ قادریہ میں حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ سے تھا اور مجھے حضرت والد محترمؒ نے سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت سے نوازا ہے۔ اس لیے میں ’’ڈبل سم‘‘ رکھتا ہوں اور جہاں جس سم کی ضرورت پڑتی ہے اس سے استفادہ کرتا ہوں۔
دوران سفر مختلف مسائل پر سوال و جواب کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ ایک جگہ سوال ہوا کہ آپ نے عبد الستار ایدھی مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کی ہے حالانکہ ان کے ایمان و عقیدہ کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ محض شکوک و شبہات پر کسی شخص کے ایمان کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر جمہور اہل علم نے ان کی تکفیر کی ہے تو میں غلطی کا اعتراف کر کے اپنے الفاظ واپس لے لوں گا۔ اور اگر بات تکفیر کی نہیں ہے تو دعائے مغفرت پر اعتراض بے معنی ہے۔ بعد میں مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے بھی اس سوال پر اسی طرح کا جواب دیا ہے۔
ایک سوال دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو صوبائی حکومت کی طرف سے ملنے والی ۳ کروڑ روپے کی مالی امدا کے بارے میں بھی ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر یہ رقم دارالعلوم حقانیہ کے فنڈ میں دی گئی ہے جس پر خود دارالعلوم حقانیہ نے تصرف کرنا ہے تو اس پر مجھے بھی اشکال ہے۔ کیونکہ یہ مدارس کی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس سے نہ صرف دینی مدارس میں آڈٹ کے حوالہ سے سرکاری مداخلت کا دروازہ کھل سکتا ہے بلکہ دینی مدارس کی حکومتوں سے امداد نہ لینے کی مجموعی پالیسی بھی متاثر ہوگی۔ لیکن اگر اس رقم سے خود صوبائی حکومت دارالعلوم حقانیہ کا کوئی تعمیری یا ترقیاتی کام مکمل کر کے اس کے حوالہ کر دے تو اس کے لیے ’’صدام بلاک‘‘ طرز کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں اور میرے خیال میں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔