فلسطین کی موجودہ صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں

   
نومبر ۲۰۲۳ء

اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جماعت ’’حماس‘‘ کی کارروائی کے بعد غزہ پر اسرائیل کے فضائی حملوں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور اب تک مبینہ طور پر پانچ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں جبکہ غزہ کا بہت بڑا حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ خوراک، بجلی، پانی اور طبی سہولیات کا بحران بھی پیدا ہو چکا ہے۔

حماس نے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے عنوان سے گزشتہ دنوں غزہ سے متصل اسرائیلی علاقوں کو حملے کا نشانہ بنایا تھا جس میں اخباری رپورٹوں کے مطابق چودہ سو سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے اور دو سو سے زائد افراد کو حماس نے یرغمال بنا لیا ہے، اگرچہ اتنی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت والا معاملہ غور طلب ہے کیونکہ حماس سے رہائی پانے والی ایک خاتون نے انٹرویو کے دوران رپورٹروں سے کہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ بہرحال حماس کے اس آپریشن پر ہر طرف سے حیرت کا اظہار کیا گیا ہے، اس پہلو سے بھی کہ اچانک اتنی بڑی کارروائی کیسے منظم کی گئی، اور اس حوالہ سے بھی کہ اس کے مقاصد کیا ہیں اور حماس اس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

ہمارے خیال میں حماس چونکہ اپنے علاقہ اور وطن کو اسرائیل کے قبضہ سے چھڑانے کی جنگ لڑ رہی ہے جو معروف معنوں میں ’’جنگِ آزادی‘‘ کہلاتی ہے، اس لیے آزادی کی جدوجہد میں اس طرح کے اقدامات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ خود ہمارے ہاں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف دو سو سالہ جنگِ آزادی کے دوران بیسیوں ایسے معرکے بپا ہوئے ہیں جنہیں جذبۂ آزادی سے سرشار مجاہدین کے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ جنگ آزادی کا حصہ تصور ہوتے ہیں بلکہ اس قسم کے معرکوں کا تسلسل ہی بالآخر جنگ آزادی کی کامیابی تک مجاہدین کو لے جاتا ہے۔سلطان ٹیپوؒ، جنرل بخت خانؒ، سردار احمد خان کھرل ؒ، حاجی شریعت اللہؒ، تیتومیرؒ پیر صبغۃ اللہ راشدیؒ، حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ جیسے مجاہدینِ آزادی کے علاوہ تحریک ریشمی رومال اور اس نوعیت کے دیگر معرکوں میں یہی جذبۂ حریت اور شوقِ شہادت کارفرما تھا، اگر انہیں ان پیمانوں سے ماپا جائے جو آج حماس کی اس جرأتِ رندانہ پر سوالیہ نشان کھڑا کر کے کیے جا رہے ہیں تو ان میں سے کوئی معرکہ بھی آج کے ناقدین کے ’’معیار‘‘ پر پورا نہیں اترے گا۔ مگر یہ سب معرکے ہماری جنگ آزادی کا حصہ ہیں جن پر ہمیں آج بھی فخر ہے اور ہم اپنے ان محسنین کے لیےمسلسل دعاگو رہتے ہیں۔ اس لیے حماس کی اس کاروائی کو جذبۂ حریت اور آزادئ وطن سے سرشاری کے حوالے سے ہی دیکھنا ہو گا اور فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کا اہتمام کرنا ہو گا جو ہماری ملی و دینی ذمہ داری بنتی ہے۔

باقی رہا اس کاروائی کے مقاصد اور نتائج کا سوال تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حماس کے اس اقدام سے پہلے عالمی ماحول میں اسرائیل کو بہت سے مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب اور پاکستان سے تسلیم کرانے کا جو ماحول پروان چڑھ رہا تھا اور اس کے لیے بیک ڈور سرگرمیاں دکھائی دے رہی تھیں، انہیں بریک لگ جانا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے آگے بڑھنے والے قدموں کا رک جانا ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ خدا کرے کہ اسرائیل کے مظالم اور ارضِ فلسطین پر اس کے غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کو جواز کی سند فراہم کرنے میں مصروف عناصر کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ وہ ایسا کر کے نہ صرف فلسطینی عوام پر ظلم کر رہے ہیں بلکہ انصاف اور اصول کی مسلمہ روایات سے بھی انحراف کے مرتکب ہیں۔

اس صورتحال میں عالم اسلام کے تمام طبقات بالخصوص مسلم حکومتوں سے ہماری گزارش ہے کہ اس معاملہ میں دینی حمیت اور ملی غیرت کے جذبہ و احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں، جس کے لیے ضروری ہے کہ

  • فوری طور پر اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بلا کر فلسطینی عوام کی حمایت و پشت پناہی کے ساتھ ساتھ ان کی امداد کی حکمت عملی طے کی جائے۔
  • اقوام متحدہ میں مسلم ممالک خصوصاً‌ پاکستان، سعودی عرب، مصر اور ترکیہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی رائے عامہ کو اسرائیلی مظالم کے خلاف منظم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اور عالمی ماحول میں بیت المقدس کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کے لیے منظم اور مربوط لائحہ عمل ترتیب دیں۔
  • دنیا بھر میں مسلم ادارے، جماعتیں اور طبقات فلسطینیوں کی حمایت میں عوامی اجتماعات اور مظاہروں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں اور مسلم رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی مہم جاری رکھیں۔
  • غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن امداد و تعاون کے لیے مخیر شخصیات اور ادارے آگے بڑھیں اور قابل اعتماد ذرائع سے خوراک، علاج اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی بروقت اور مناسب فراہمی کی جدوجہد کریں۔

مصیبت اور تکلیف کے اس سنگین مرحلہ میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کی مکمل حمایت و تائید کرتے ہوئے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت اس آزمائش میں انہیں سرخروئی نصیب فرمائیں اور بیت المقدس اور فلسطین کو آزادی سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter