قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کا حکومتی اختیار

   
نومبر ۱۹۹۸ء

قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لا قرار دینے کے لیے آئین میں پندرہویں ترمیم کا بل قومی اسمبلی نے منظور کر لیا ہے اور اب یہ بل سینٹ میں جا چکا ہے۔ جس کے بارے میں حکومتی حلقے اس توقع کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں کہ ایوانِ بالا میں حکومت کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود وہ اسے سینٹ میں منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اور قرآن و سنت کو ملک کا بالاتر قانون قرار دینے کی شق دستورِ پاکستان کا باقاعدہ حصہ بن جائے گی۔

دستوری ترمیم کا یہ بل جب ایوان میں پیش کیا گیا تھا تو اس میں قرآن و سنت کو سپریم لا قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے لیے دستور میں آئندہ ترامیم کا طریقہ تبدیل کرنے، اور حکومت کو بعض ایسے اختیارات دینے کی شقیں بھی شامل تھیں۔ جو ملک کے سیاسی حلقوں میں متنازعہ حیثیت اختیار کر گئیں، اور نفاذِ شریعت کی مخالف قوتوں کو اس بہانے اس کے خلاف اپنی مہم آگے بڑھانے کا موقع ملا۔ چنانچہ حکومت نے بہت سی متنازعہ شقیں بل سے نکال دی ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ حلقوں کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی ہے۔ جو ایک خوش آئند امر ہے اور قومی اسمبلی سے اس کی منظوری کے ساتھ ساتھ اس مفاہمانہ طرزعمل پر بھی حکومت بجا طور پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ ہمیں امید ہے کہ سینٹ میں بھی یہ بل مطلوبہ اکثریت کے ساتھ منظور ہو جائے گا اور قرآن و سنت کو ملک کا بالاتر قانون قرار دینے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کی طرف عملی پیشرفت کی راہ ہموار ہو گی۔

اس کے ساتھ ہی یہ عرض کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ حکومت نے بل سے بہت سی متنازعہ شقیں نکال دی ہیں لیکن اس باوجود اسلامی احکام و قوانین کی تشریح و تعبیر کے حوالے سے بل میں ابہام بدستور باقی ہے، کیونکہ منظور شدہ بل کی شق ۵ یوں ہے:

’’اس آرٹیکل کے احکام دستور میں شامل کسی امر کے باوجود کسی قانون یا عدالت کے کسی فیصلے پر مؤثر ہوں گے۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۸ء)

اس شق کا عام طور پر یہ مطلب سمجھا جا رہا ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت حاصل شدہ اختیارات کی رو سے حکومت جو احکام جاری کرے گی، انہیں پہلے سے موجود تمام قوانین اور عدالتی فیصلوں پر بالادستی حاصل ہو گی۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن نے اس شق کا ذکر کرتے ہوئے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ

’’لیکن تیسرا اور آخری امر ’’اس آرٹیکل کے احکام عدالت کے کسی فیصلے پر مؤثر ہوں گے‘‘ خاص توجہ چاہتا ہے۔ میرا ایقان (رجوع الی اللہ کے بعد) یہ کہتا ہے اس شق میں ’’کسی عدالت کے فیصلہ‘‘ کا ذکر خالی از علت نہیں ہے۔ میرے ایک قریب ترین عزیز نے جب اس بل کے متن کو اخبار میں پڑھا تو اسی وقت برملا اس کی زبان سے نکلا کہ ’’سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ نواز شریف کی داڑھ میں اٹکا ہوا ہے‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے بعد کہ وہ مجھ پر اس کی حقیقت منکشف کر دے، میں کہتا ہوں کہ اس بل کا واحد اور بنیادی مقصد وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلہ سے نجات حاصل کرنا ہے۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ جنگ، لندن ۔ ۱۸ ستمبر ۱۹۹۸ء)

ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن صاحب کا یہ تبصرہ بل کی منظوری سے پہلے کا ہے، لیکن چونکہ منظور شدہ بل میں بھی یہ شق جوں کی توں شامل ہے اس لیے یہ خدشہ بدستور موجود ہے۔ اور ہمارے نزدیک اس شق کا اصولی مطلب یہ ہے کہ اس کی منظوری کے بعد اسلام کی تعبیر و تشریح، اور کسی امر کو اسلامی یا غیر اسلامی قرار دینے کا حتمی اختیار صرف حکومت کو حاصل ہو گا، اور اس ضمن میں اس کے کسی فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ حتیٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔ اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ممتاز عالمِ دین مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے اس بل کے منظور شدہ متن پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک حالیہ مضمون میں تجویز پیش کی ہے کہ

’’ملکی آئین میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کسی فیصلے، قانون یا دستور کی کسی شق کو قرآن و سنت کے موافق یا خلاف قرار دینے کا اختیار وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کو ہو گا۔‘‘ (بحوالہ روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۸ء)

بہرحال قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے اختیار کے حوالے سے منظور شدہ بل میں ابہام موجود ہے۔ قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لا قرار دلوانے کے فیصلہ کا خیرمقدم کرنے اور اس مسرت کا اظہار کرنے کے باوجود ہم مذکورہ بالا خدشات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ابہام کو دور کیا جائے اور جید علماء کرام کو اعتماد میں لے کر قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے اختیار کا کوئی ایسا فارمولا طے کیا جائے جو ملک میں کسی نئے فکری خلفشار کا باعث نہ بنے۔

   
2016ء سے
Flag Counter