آج آزاد کشمیر کے تاریخی شہر باغ میں آل جموں و کشمیر جمعیۃ علمائے اسلام کے زیر اہتمام دو روزہ ’’خدمات علماء دیوبند کانفرنس‘‘ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ کانفرنس اکابر علماء دیوبند کی ملی و دینی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی جا رہی ہے اور اس کا ایک بڑا مقصد اپنے بزرگوں کی خدمات اور کارناموں کا تذکرہ کر کے ان سے راہنمائی حاصل کرنے کے علاوہ نئی نسل کا ذہنی و فکری رشتہ ان بزرگوں کے ساتھ قائم رکھنا اور آج کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ آج اگر جنوبی ایشیا میں اسلام کا نام زندہ ہے، دینی تعلیم و ثقافت کی اقدار و روایات کا تسلسل قائم ہے اور عام مسلمان کا اپنے دین اور تہذیب کے ساتھ رشتہ بدستور موجود ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور کرم کے ساتھ عالم اسباب میں ان جان نثاروں اور سرفروشوں کی طویل جدوجہد کا ثمر ہے جنہوں نے وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے خدشات کو بھانپتے ہوئے ان کی تکمیل کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ اور ایثار، قربانی، سادگی اور تدبر و حوصلہ کے ساتھ ایک ایسے تعلیمی اور فکری محاذ کا آغاز کیا جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ناقابل شکست تعلیمی و تہذیبی حصار ثابت ہوا اور جس کے اثرات کا جنوبی ایشیا سے باہر بھی پورے عالم اسلام میں کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت حاجی عابد حسینؒ اور ان کے رفقاء اس قافلۂ حریت کے بچے کھچے افراد تھے جس نے برصغیر میں برطانوی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے مسلح جدوجہد میں حصہ لیا تھا اور دو محاذوں پر شکست کھا چکے تھے۔ اس قافلہ نے مئی ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ کی پہاڑیوں پر پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کے ہاتھوں ہزیمت اٹھائی اور امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ اور امام المجاہدین حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کربلا کی یاد تازہ کرتے ہوئے اپنے رفقاء سمیت بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کا تعلق دہلی کی اس جماعت سے تھا جو امام ولی اللہ دہلویؒ کے دور سے اس خطہ کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ، تہذیب و ثقافت اور حمیت و غیرت کو زندہ رکھنے کے لیے سرگرم عمل تھی اور اب معاملہ تیسری اور چوتھی پشت کے ہاتھ میں تھا۔
دہلی میں ولی اللہی جماعت کی علمی و سیاسی قیادت حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے نواسے حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کے ہاتھ میں تھی جبکہ بالاکوٹ کے معرکہ کی قیادت حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے شاگرد حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے پوتے حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کر رہے تھے۔ ان کے عزائم بڑے تھے، پروگرام وسیع تھا اور اہداف بلند تھے۔ وہ مظفر آباد کو اپنا بیس کیمپ بنا کر ریاست جموں و کشمیر کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے اور ریاست جموں و کشمیر کو مرکز کا درجہ دے کر پورے جنوبی ایشیا میں جنگ آزادی کو منظم کرنا چاہتے تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے انہیں پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ سے مقابلہ درپیش تھا اور اسی مقابلہ کے مرحلہ میں وہ جان کی بازی ہار گئے۔
۱۸۳۱ء کی اس شکست کے بعد دہلی کی جماعت کے سرخیل حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ ہجرت کر کے حجاز مقدس چلے گئے اور ملک بھر میں آزادی کے طلبگاروں نے اندر ہی اندر برطانوی استعمار کے خلاف ایک اور معرکہ حریت کی تیاری شروع کر دی۔ ربع صدی تک جذبات کا لاوا پکتا رہا، منصوبے بنتے رہے، رابطے ہوتے رہے اور اسکیمیں تیار ہوتی رہیں۔ یہ لاوا ۱۸۵۷ء میں پھٹا اور ایسا پھٹا کہ ہر طرف حریت و آزادی کے جذبات کے شعلے بھڑکنے لگے۔ یہ جنگ جنوبی ایشیا کے مختلف حصوں میں لڑی گئی، دہلی کے معرکہ کی قیادت جنرل بخت خانؒ نے کی، پنجاب میں سردار احمد خان کھرل شہیدؒ نے علم بغاوت بلند کیا، کئی مقامات پر برطانوی فوج کے دیسی سپاہیوں نے بغاوت کی اور ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ دہلی سے انگریزوں کے قدم اکھڑ گئے اور یوں محسوس ہونے لگا کہ دہلی کا برطانوی اقتدار قصۂ پارینہ بننے والا ہے۔ مگر تقدیر غالب آئی، مجاہدین حریت نے اپنوں کی غداری کے باعث جیتی ہوئی بازی ہاری، دہلی کا اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے برطانوی بادشاہ نے براہ راست سنبھال لیا، مغل بادشاہت کی آخری علامت بہادر شاہ ظفرؒ کو کسمپرسی اور بے بسی کے عالم میں رنگون کی طرف جلاوطن کر کے محبوس کر دیا گیا، پورے نظام کی بساط لپیٹ دی گئی، مجاہدین آزادی انتقام کی بھینٹ چڑھنے لگے، ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ہزاروں جیلوں کی نذر ہوگئے، ہزاروں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں، سینکڑوں کالا پانی کے جزائر میں بھیج دیے گئے، دین کے نمائندے اور اسلامی اقتدار و تاریخ کی بات کرنے والے اس انتقام کا سب سے بڑا ہدف تھے کہ وہی آزادی اور حریت کے جذبات کی آبیاری کر رہے تھے۔
انہی مجاہدین میں شاملی کے محاذ کے حریت پسند بھی تھے۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ ضامن شہیدؒ اور ان کے ساتھیوں کا تعلیمی اور فکری تعلق حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ اور حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ سے تھا جو حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کے شاگرد اور ان کے علوم و روایات کے امین تھے، اور روحانی تعلق حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ سے تھا جو اپنے وقت کے اکابر اولیائے کرامؒ میں سے تھے۔ اس قافلۂ حریت نے حضرت حاجی صاحبؒ ہی کی سربراہی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شاملی کے محاذ پر برطانوی فوجوں سے جنگ لڑی تھی اور ایک مرحلہ پر شاملی تحصیل پر قبضہ بھی کر لیا تھا جس کے بعد کم و بیش تین ہفتوں تک حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے اس محدود علاقے پر امیر کی حیثیت سے حکومت کی مگر دہلی کی شکست کے ان پر اثرات پڑے اور وہ بھی کشتگانِ حریت میں شامل ہوگئے۔ حضرت حاجی صاحبؒ گرفتاری سے بچتے بچاتے حجاز مقدس ہجرت کر گئے، حضرت گنگوہیؒ گرفتاری اور مقدمہ کے مراحل سے گزرے اور حضرت نانوتویؒ بھی انتقام کا نشانہ بنتے بنتے بچے۔
جنگ آزادی میں برادرانِ وطن کی شکست اور مجاہدینِ آزادی کی ناکامی کے نتائج و ثمرات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ بدیشی حکمران اس خطۂ زمین پر سابقہ حکمرانوں کے بچے کھچے اثرات کا آخری نشان تک مٹا دینے پر تل گئے تھے۔ دینی مدارس اور مساجد کا نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا تھا اور یوں لگتا تھا کہ ایک اور اسپین کا ڈرامہ تاریخ کے اسٹیج پر نمودار ہونے والا ہے۔ اس ماحول میں دہلی کی ولی اللہی جماعت کے آخری امام حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کے علمی وارثوں حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگردوں اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے فیض یافتہ درویشوں نے تہذیبی، تعلیمی اور فکری سرمایہ کو حملہ آوروں اور قابضوں کی دست برد سے بچانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ الہامی تھا اور قدرت کا تکوینی نظام اس کی راہ ہموار کر رہا تھا۔ تاریخ نے یہ منظر دیکھا کہ ۱۸۵۷ء کی خوفناک اور ہمہ گیر شکست کے صرف نو سال بعد ۱۸۶۶ء میں ضلع سہارنپور کے ایک قصبہ دیوبند میں چند درویش ایک علمی اور فکری سفر کا آغاز کر رہے تھے اور پورا باغ اور نخلستان اجڑ جانے کے بعد انار کے ایک درخت کے سائے میں ایک نیا پودا لگا رہے تھے۔ بظاہر یہ ایک دینی درسگاہ کا آغاز تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ ہم اپنے تعلیمی ورثہ کو بچانے اور نئی نسل کا دینی تعلیم کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے ریاستی نظام سے ہٹ کر اپنے رضاکارانہ وسائل کے ساتھ دینی درسگاہ کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں اور یہیں سے سفر کا آغاز ہوا تھا مگر اس کام کی شروعات کرنے والوں کا علمی اور ملی پس منظر کیا رہا تھا، اصل عزائم کیا ہیں اور پروگرام کے اہداف کا دائرہ کیا ہے؟
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’ہم نے تعلیم کی چادر اوڑھ لی ہے‘‘۔ اور حضرت شیخ الہندؒ نے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے ایک استفسار کے جواب میں کہا کہ ’’میرے نزدیک ہمارے بزرگوں نے ۱۸۵۷ء کے نقصانات کی تلافی کے لیے یہ مدرسہ قائم کیا تھا‘‘۔
دیوبند کے اس مدرسہ نے دارالعلوم کی شکل اختیار کی، اس کے نقش قدم پر جنوبی ایشیا میں ہزاروں بلکہ اب لاکھوں مدارس نے اس راہ کو اختیار کیا اور ایک ایسا مستحکم پرائیویٹ تعلیمی نظام وجود میں آگیا جس نے سیاسی، معاشی، عسکری اور سائنسی محاذوں پر مغربی استعمار کی فتح و غلبہ کو فکری، تعلیمی اور ثقافتی محاذوں پر شکست میں بدل دیا۔ اور آج مغربی استعمار اپنی اس ہزیمت کا ادراک و احساس کرتے ہوئے دینی مدارس اور دینی حلقوں پر جس طرح دانت پیس رہا ہے وہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہزاروں مدارس کے تاریخی کردار کی زندہ شہادت ہے۔
آج اس علمی، فکری اور تہذیبی محاذ کو ایک نئے عالمی چیلنج کا سامنا ہے، اس کے خلاف نئی صف بندی ہو چکی ہے اور گلوبل ورلڈ کا نیا استعمار اس نظام کو اپنے عالمی غلبہ اور تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے طاقت، دولت اور سازش کے ذریعے اسے سبوتاژ کر دینا چاہتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی روایات کا پرچم بلند رکھا جائے، ان کی یاد کو تازہ رکھا جائے اور ان کے خلوص و ایثار اور عزیمت و حوصلہ کو مشعل راہ بنایا جائے کہ قوموں اور ملتوں کو یہی جذبے اور روایات فکری اور ثقافتی شکست سے بچایا کرتی ہیں۔