روزنامہ جنگ لاہور ۱۶ جنوری ۲۰۰۰ء کے مطابق
’’ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے جنگی ٹربیونل نے بوسنیا کے پانچ کروٹ باشندوں کو مسلمانوں کے قتلِ عام کا مجرم قرار دے دیا ہے۔ ان پانچ کروٹ باشندوں نے ۱۹۹۳ء میں بوسنیا کے ایک وسطی گاؤں میں ایک سو مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ جن افراد کو سزائے قید سنائی گئی ہے ان میں کروٹ فوج کی سابق نام نہاد پارلیمان کے چیئرمین ولڈیمیر ساتس کو بھی مسلمانوں کے قتلِ عام کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ ان پانچ افراد کو مسلمانوں کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر چھ سال سے پچیس سال تک قید کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔‘‘
بوسنیا میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتلِ عام کے ہولناک مناظر ابھی تک وقفے وقفے سے سامنے آ رہے ہیں، اور سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد انہیں جن اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا وہ وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ یہ قتلِ عام صرف اس لیے ہوا تھا کہ اس خطہ کے مسلمانوں نے پون صدی کے جبر کے باوجود اسلام سے اپنا تعلق نہیں توڑا تھا، اور وہ تھوڑی سی آزادی ملنے پر اپنے مذہبی تشخص کے اظہار کے لیے بے چین ہو گئے تھے۔ انہیں انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور مذہبی رواداری کا ڈھنڈورا پیٹنے والی مغربی اور یورپی حکومتوں کی آنکھوں کے سامنے بلکہ ان کی سرپرستی میں گزشتہ صدی کی سب سے سنگین دہشت گردی اور درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ مگر آزادی اور رواداری کے یہ نام نہاد علمبردار مگرمچھ کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔
اور آج سینکڑوں مسلمانوں کے قتلِ عام کا مجرم ثابت ہو جانے والوں کو بین الاقوامی عدالت نے چھ سال سے پچیس سال تک قید کی سزا کا جو حکم سنایا ہے، یہ بھی ہمارے نزدیک بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ورنہ سینکڑوں انسانوں کے قتل کے مجرم صرف چند برس کی قید کے نہیں بلکہ اس سزا کے مستحق تھے کہ انہیں بوسنیا کے کسی بارونق چوک میں سرعام پھانسی دی جاتی اور ان کی لاشیں کئی روز تک عبرت کے طور پر لٹکتی رہتیں، تاکہ درندگی اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے خاندانوں کو کم از کم یہ دیکھ کر تسلی تو ہوتی کہ ان کی زندگیوں، عزتوں اور آزادی سے کھیلنے والے اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ مگر یہ مغرب ہے جس کے لیڈروں کی زبانوں پر دنیا بھر کے لیے آزادی، حقوق اور انصاف کے نعرے ہیں، لیکن جہاں مسئلہ مسلمانوں کا آجاتا ہے وہاں ان کے سارے اصول، اخلاقیات، دعوے اور نعرے ایک طرف دھرے رہ جاتے ہیں۔