روزنامہ اوصاف اسلام آباد نے ۱۶ مارچ ۲۰۰۰ء کو ساہیوال کی ایک رقاصہ فہمیدہ کا تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے جس میں اس نے بتایا کہ پاکستان سے مختلف ممالک میں رقاصاؤں کے جو ثقافتی طائفے جاتے ہیں ان سے رقص و سرود کی محفلیں سجانے کے علاوہ جسم فروشی کا مکروہ دھندہ بھی کرایا جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی عید الفطر سے پہلے ایک ثقافتی طائفے کے ساتھ دوبئی گئی تھی جہاں گانے والی لڑکیوں سے دن کے وقت محفلوں میں رقص کرایا جاتا اور رات کو وہی لڑکیاں جسم فروشی کے لیے سپلائی کی جاتی تھیں۔ اس نے بتایا کہ ان کے ساتھ دو طائفے دوبئی گئے تھے جو تین ماہ تک مسلسل اسی دھندے میں مصروف رہے، اور وہ خود درمیان میں کسی طرح بھاگنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اس رقاصہ کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں کو رقص کی محفلوں اور جسم فروشی کے دھندے کے بعد ویران مقامات پر کوٹھیوں میں بند کر دیا جاتا تاکہ وہ فرار نہ ہو سکیں۔
یہ کوئی نیا انکشاف نہیں ہے بلکہ اس قسم کی خبریں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ حتیٰ کہ اندرون ملک بھی کلچر اور تفریح کے نام پر جن میلوں کا سرکاری سرپرستی میں اہتمام کیا جاتا ہے ان میں بدکاریوں اور جوئے کی شکایات عام طور پر سامنے آ رہی ہیں۔ خود ہمارے شہر گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر کئی ماہ سے تفریحی میلہ کے نام پر مبینہ طور پر جوئے اور بدکاری کا کاروبار ہو رہا ہے، اور ضلعی انتظامیہ کو متعدد بار توجہ دلائی گئی ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رنگتی۔ اور جب دینی حلقوں کی طرف سے احتجاج ہوتا ہے تو کلچر یا تفریح اور ثقافت کے نام پر اس احتجاج کو یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ کلچر اور ثقافت کی اصطلاحات کا انتہائی شرمناک استعمال ہے جس کی آڑ میں قوم کو بدکار، حرام خور اور بے حیا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اس قسم کے مکروہ اور گھناؤنے کاروبار کو ہر جگہ مبینہ طور پر اعلیٰ سرکاری حکام کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیے ہم جنرل پرویز مشرف صاحب سے یہ عرض کریں گے کہ اگر وہ ’’جہاد‘‘ کے نعرہ میں مخلص ہیں اور قوم کو واقعتاً بھارت کے خلاف جہاد کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ثقافت، کلچر اور تفریح کے نام پر بدکاری اور جوئے کے اس مذموم کاروبار کو روکنا ہو گا۔ کیونکہ یہ جہاد کے یکسر منافی ہے اور جوئے اور بدکاری کی رسیا کوئی قوم میدانِ جہاد میں دشمن کا سامنا نہیں کر سکتی۔