احترامِ رمضان آرڈیننس ۱۹۸۱ء کو مؤثر بنانے کا سرکاری اعلان

   
دسمبر ۲۰۰۰ء

روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۲۴ نومبر ۲۰۰۰ء کی خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے ماہِ رمضان المبارک کے دوران ’’احترامِ رمضان المبارک آرڈیننس ۱۹۸۱ء‘‘ کو مؤثر بنانے کا اعلان کیا ہے، جس کے مطابق

  • ماہِ رمضان کے دوران مخصوص اوقات میں عوامی مقامات پر کھانے پینے اور سگریٹ نوشی پر مکمل پابندی ہو گی۔
  • سینما گھر، تھیٹر اور اس قسم کے دیگر ادارے غروبِ آفتاب کے بعد تین گھنٹے تک بند رہیں گے۔
  • احترامِ رمضان آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے والے سینما گھروں اور تھیٹروں کے مالکان کو چھ ماہ تک قید، پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا ہو گی،
  • اور اس آرڈیننس کے تحت مجسٹریٹوں کو آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو موقع پر ہی سزا سنانے کا اختیار ہو گا۔

رمضان المبارک مقدس اسلامی مہینہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا، اور دینی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ روزہ بھی اسی مہینہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے سال کے باقی مہینوں میں تقدس کا درجہ حاصل ہے، اور اس کا احترام ہمارے دینی آداب اور تقاضوں میں سے ہے جس کی حدود و تفصیلات فقہاء نے بیان فرمائی ہیں۔

ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے سے پاکستان میں رمضان المبارک کے احترام کو قانونی حیثیت دینے کا مسلسل مطالبہ ہوتا رہا ہے، جس پر ۱۹۸۱ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے مذکورہ بالا قانونی پابندیوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود یہ شکایت بدستور باقی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بڑے شہروں میں احترامِ رمضان کا اہتمام نہیں ہوتا، مختلف بہانوں سے اس کے تقاضوں کے خلاف سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں ساری صورتحال ہوتی ہے مگر قانون حرکت میں نہیں آتا۔

یہ صرف احترامِ رمضان آرڈیننس کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ملک میں رائج دیگر عام قوانین بالخصوص اسلامی احکام و ضوابط کے بارے میں بھی یہ شکایت پائی جاتی ہے کہ قوانین پر عملدرآمد اور ان کے بروقت اور مؤثر نفاذ کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ جس سے مسائل و مشکلات حل ہونے کی بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اگر حکومت نے احترامِ رمضان آرڈیننس کو مؤثر بنانے اور اس پر عملدرآمد کے عزم کا اظہار کیا ہے تو یہ بات خوش آئند ہے۔ مگر خدا کرے کہ آرڈیننس کی طرح کہیں اس کو مؤثر بنانے کا یہ اعلان بھی معمول کی رسمی کاروائی ثابت نہ ہو۔

   
2016ء سے
Flag Counter