دو دن طالبان کے کابل میں

   
۱۵ مارچ ۱۹۹۷ء

گزشتہ ماہ کے آخر میں دو روز کے لیے کابل جانے کا موقع ملا۔ اس سے قبل اس دور میں کابل جانا ہوا تھا جب نجیب حکومت کے خاتمہ کے بعد پروفیسر صبغۃ اللہ مجددی مجاہدین کی عبوری حکومت کے سربراہ تھے، احمد شاہ مسعود وزیر دفاع کی حیثیت سے عسکری معاملات کو کنٹرول کر رہے تھے، افغانستان کی سابق حکمران پارٹی کا ہیڈ کوارٹر مولوی محمد نبی محمدی کی حرکتِ انقلاب اسلامی کے قبضہ میں تھا اور وہ اپنے رفقاء مولوی نصر اللہ منصور شہید اور مولوی ارسلان رحمانی کے ہمراہ حکومتی امور میں اہم رول ادا کر رہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف انجینئر گلبدین حکمتیار کابل کی حکومت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف محاذِ جنگ پر ڈٹے ہوئے تھے۔

حرکۃ الجہاد الاسلامی کی دعوت پر پاکستان کے سرکردہ علماء کا ایک بڑا وفد کابل گیا اور پروفیسر صبغۃ اللہ مجددی، مولوی محمد نبی محمدی اور احمد شاہ مسعود سے وفد کی تفصیلی بات چیت ہوئی، لیکن زیادہ تر گفتگو انجینئر حکمتیار اور احمد شاہ مسعود کے تنازعہ اور کشمکش کے گرد ہی گھومتی رہی۔ دو روز کے بعد وفد کی واپسی ہوئی تو پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمٰن درخواستی اور راقم الحروف کابل میں ٹھہر گئے۔ خیال تھا کہ ذرا اطمینان سے دو چار روز گھومیں پھریں گے اور حالات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں گے، لیکن اسی روز حزبِ وحدت اور پروفیسر عبد رب الرسول سیاف کے درمیان جنگ چھڑ گئی، دونوں گروہ ایک دوسرے پر کھلم کھلا راکٹ برسانے لگے۔ ہم لوگ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ ہوٹل بھی راکٹوں کی زد سے محفوظ نہ رہا اس لیے ہمیں مزید قیام کا ارادہ ملتوی کر کے واپسی کا سفر کرنا پڑا۔

مگر اب حرکۃ الانصار کے مرکزی راہنما مولانا سعد قاسم کے ہمراہ کابل جانا ہوا تو پورا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ اب وہاں طالبان کی حکمرانی تھی اور مولوی محمد نبی محمدی، احمد شاہ مسعود، پروفیسر سیاف اور حزبِ وحدت کے الگ الگ گروہ قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ کابل بارہ سالہ جہادِ افغانستان کے دوران لڑائی کے اثرات سے محفوظ رہا تھا، لیکن مجاہدین کی حکومت قائم ہونے کے بعد احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمتیار، پروفیسر سیاف اور حزبِ وحدت کی باہم جنگ نے ساری کسر نکال دی اور چاروں طرف سے پہاڑیوں کے درمیان گھرے ہوئے اس خوبصورت شہر کی جو بلند و بالا عمارتیں پہلے سفر میں ہمیں صحیح سلامت دکھائی دیتی تھیں، اب وہ کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکی تھیں، مگر اس کے باوجود کابل کے باسیوں کے چہروں پر خوف اور شک کی بجائے اطمینان اور اعتماد کے اثرات دکھائی دے رہے تھے۔ اس لیے کہ طالبان کی حکومت نے انہیں خانہ جنگی سے نجات دلا کر امن سے بہرہ ور کیا ہے اور شرعی قوانین کے نفاذ کی صورت میں جہادِ افغانستان کے مقاصد کی تکمیل کی طرف قدم بڑھا کر افغان عوام کی قربانیوں کو بامقصد بنا دیا ہے۔

طالبان کے بارے میں بہت سے لوگ ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہیں اور یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ یہ طالبان کون لوگ ہیں؟ اچانک کہاں سے نکل آئے؟ اتنی بڑی تعداد میں کیسے جمع ہو گئے؟ اسلحہ کہاں سے حاصل کیا؟ ٹریننگ کہاں سے لی؟ احمد شاہ مسعود اور حکمتیار جیسے تجربہ کار کمانڈروں کو انہوں نے اتنی جلدی کیسے شکست دے دی؟ اور کسی بھی جانب سے امداد نہ ملنے کے باوجود حکومت کا نظام کیسے چلا رہے ہیں؟ لیکن یہ سب سوالات ان لوگوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں جو حالات سے براہ راست واقف نہیں ہیں اور معلومات کے سلسلہ میں مروجہ ذرائع ابلاغ پر ان کا انحصار ہے۔ اور جو حضرات افغانستان کے حالات سے براہ راست آگاہ ہیں ان کے لیے ان میں سے کوئی سوال بھی سوال کی حیثیت نہیں رکھتا، اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ طالبان دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ ہیں جو افغانستان اور پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اور جہادِ افغانستان کے دوران مجاہدین کے مختلف گروپوں میں شامل ہو کر تین تین چار چار سال تک معرکوں میں شریک رہے ہیں، انہیں ٹریننگ اور اسلحہ انہی دنوں میں حاصل ہوا ہے۔

افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا اور کابل پر مجاہدین کی حکومت قائم ہونے کے بعد مجاہدین کے مختلف گروپوں کے درمیان مسلسل خانہ جنگی اور باہمی معاہدوں کی خلاف ورزیوں سے تنگ آ کر مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے طالبان نے متحد ہو کر اپنے اپنے لیڈر کے خلاف بغاوت کر دی، اور قندھار کے ایک سادہ اور مخلص نوجوان عالم دین ملا محمد عمر کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے۔ اسلحہ اور ٹریننگ ان کے پاس پہلے بھی موجود تھی، مزید براں انہوں نے جس علاقے پر قبضہ کیا وہاں پہلے ہی آپریشن میں عام آبادی کو نہتا کر کے ان سے سارا اسلحہ لے لیا اور وہ جس کمانڈر کے خلاف بھی صف آرا ہوئے اس کی اپنی فورس نے طالبان کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا۔ خانہ جنگی سے تنگ آئے ہوئے افغان عوام نے طالبان کا ہر جگہ خیر مقدم کیا اور طالبان کی سادگی اور ہر جگہ شرعی قوانین کی عملداری کے اہتمام نے انہیں افغانستان کی سب سے زیادہ مضبوط اور مقبول عوامی قوت بنا دیا۔

کچھ اسی طرح کا کنفیوژن طالبان کی حکومت کے اقدامات کے بارے میں بھی پایا جاتا ہے، اور بہت سے دوست اس حکومت سے کسی تجربہ کار اور جہاندیدہ گروہ جیسے اقدامات کی توقع کر رہے ہیں جو فطرت کے خلاف ہے۔ یہ طالبان ہیں اور انہوں نے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کی ہے اس لیے ان کے طرزِ حکومت اور اقدامات کو اسی پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔ وہ اسلام کے مکمل اور عملی نفاذ میں اس حد تک مخلص ہیں کہ اس میں کسی قسم کی جزوی لچک کے روادار بھی نہیں ہیں، ان کے نزدیک اسلام وہی ہے جو انہوں نے کتابوں میں پڑھا ہے، وہ فقہ حنفی کے پیروکار ہیں اور اس کی جزئیات و فروعات تک پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں، انہیں اجتہاد اور مصلحت کی ضروریات سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بحث و نظر کے ذریعے نہیں ہو گا، اس کا صحیح راستہ عمل اور تجربہ ہے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھیں گے، ضروریات اور وقت کے تقاضے خودبخود انہیں اصول و قواعد اور جزئیات و فروعات کے درمیان فاصلہ قائم کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ اس لیے میرے ذہن میں تو اس سلسلہ میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے اور میں طالبان کی حکومت کے بہت سے اقدامات سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے بھی اسے اصولی طور پر ایک اچھی اور نظریاتی اسلامی حکومت سمجھتا ہوں اور اس کی حمایت و تعاون کو دینی ذمہ داری تصور کرتا ہوں۔

طالبان کے حوالے سے بات کچھ لمبی ہو گئی ہے۔ ذکر کابل کا ہو رہا تھا کہ ہم نے اس دفعہ کابل کو پہلے سے مختلف پایا۔ اب کے کھنڈرات کی تعداد زیادہ تھی، لیکن چہروں پر اطمینان و سکون کا تناسب بھی زیادہ تھا۔ ہم نے کابل میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعض مزارات پر حاضری دی، بازاروں میں گھومے پھرے، لوگوں کی چہل پہل دیکھی، پل خشتی کی جامع مسجد کے قریب بڑے بازار میں بعض سکھ صاحبان کی دکانوں کے سامنے سے گزرے تو خیال ہوا کہ ان سے بھی گپ شپ کر لی جائے۔ ایک دکاندار کا نام بھجن سنگھ تھا۔ ہم دکان میں داخل ہوئے اور ٹھیٹھ پنجابی میں ان کا حال دریافت کیا تو بہت خوش ہوئے۔ کابل کی صورتحال کے بارے میں پوچھا تو امن و امان کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا۔ دو تین اور سکھ صاحبان سے بھی بات چیت ہوئی۔ ایک صاحب نے حالات پر یوں تبصرہ کیا کہ

’’جد دے ایہہ مولبی آئے آ رات سکھ دی نیندر سوندے ہاں‘‘ (جب سے طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے ہم رات کو آرام کی نیند سوتے ہیں۔) اس کے بعد مزید کسی تبصرے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔

ہم جب کابل پہنچے تو آزاد کشمیر کے ضلع باغ سے بھی علماء کرام کا ایک وفد یہاں پہنچا ہوا تھا، جن میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ، مولانا نذیر احمد قادری، مولانا خورشید انور، مولانا ابرار حسین حقانی اور مولانا عبد الرزاق چشتی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ہم نے ایک مشترکہ وفد کی صورت اختیار کر لی اور طے پایا کہ طالبان کی حکومت کے کسی ذمہ دار سے بھی ملاقات کی جائے تاکہ حالات سے مزید واقفیت حاصل ہو سکے۔ طالبان کی حکومت کے وزیر خوراک و زراعت مولوی حمد اللہ زاہد صاحب کو ہمارے بارے میں معلوم ہوا تو ملاقات کے لیے خود ہی ہماری قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔ مولوی صاحب موصوف کراچی کے مدارس میں پڑھتے رہے ہیں اور اردو صاف بولتے ہیں، پاکستان کے بڑے بڑے علماء سے تعارف رکھتے ہیں۔ ان سے افغانستان کی معاشی صورتحال پر گفتگو ہوئی۔ وہ راقم الحروف کے اس خیال متفق تھے کہ افغانستان کی تباہ شدہ معیشت کی بحالی کے لیے حکومتیں تو شاید فراخدلی کے ساتھ امداد کے لیے آگے نہ بڑھیں، کیونکہ عالمی سطح پر طالبان کو جن شرائط پر مجبور کیا جا رہا ہے ان کے لیے وہ شرائط قبول کرنا مشکل ہے، البتہ عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے دینی جذبہ رکھنے والے تاجروں اور صنعت کاروں کو افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار کیا جا سکے تو حالات میں خاصی بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کابل کے قریب چار سو کے لگ بھگ کارخانے بند پڑے ہیں، جنہیں چلانے کے لیے سرمایہ نہیں ہے۔ ان میں زیادہ تر کارخانے خوراک کی تیاری کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں لیبر سستی ہے اور پاکستانی روپے کے حساب سے آٹھ سو ہزار روپے کے لگ بھگ تنخواہ کو اچھی تنخواہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان کے سرمایہ کار ادھر متوجہ ہوں تو انہیں سرمایہ کاری کا میدان بھی ملے گا اور ایک اسلامی نظریاتی حکومت کے ساتھ تعاون کا ثواب بھی حاصل ہو گا۔ راقم الحروف کے استفسار پر وزیر خوراک و زراعت نے بتایا کہ طالبان کی حکومت نے بیرونی سرمایہ کاروں کو مواقع اور سہولتیں فراہم کرنے کے لیے پالیسی کا بنیادی خاکہ وضع کر لیا ہے جو اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ہماری دوسری بڑی ملاقات افغانستان کے وزیر اطلاعات ملا امیر خان متقی سے ان کے دفتر میں ہوئی اور مختلف معاملات پر تفصیل کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوا۔ انہوں نے وفد کے شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق طالبان کی حکومت کی پالیسیوں سے تھا۔ تعلیمی نظام کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ حکومت سنبھالنے کے بعد ہم نے نظامِ تعلیم کی تبدیلی کے لیے تعلیمی ادارے بند کر دیے تھے جو نئی تعلیمی پالیسی وضع ہونے کے بعد رفتہ رفتہ کھل رہے ہیں، اور اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں سکول کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے، جبکہ کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی ادارے بھی چند روز تک کھلنے والے ہیں۔ افغان وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان کے علماء، عوام اور اصحابِ خیر نے جس حوصلہ اور فراخدلی کے ساتھ جہادِ افغانستان میں ہمارا ساتھ دیا ہے، ہم افغانستان کی تعمیرِ نو اور تباہ شدہ معیشت کی بحالی کے لیے بھی اپنے پاکستانی بھائیوں سے اسی جذبہ کے ساتھ تعاون کی توقع رکھتے ہیں اور عالمِ اسباب میں پاکستان اور پاکستانی عوام کو ہی اپنا سب سے زیادہ خیرخواہ اور معاون سمجھتے ہیں۔

کابل میں ہمارا قیام دو دن رہا اور ہم نے ہسپتال میں زخمی مجاہدین کی عیادت بھی کی اور جب کابل سے واپسی پر ہم طور خم کی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے تو ذہن کی سکرین پر یہ سوال بار بار ابھر رہا تھا کہ کیا روسی استعمار کے خلاف افغان مجاہدین کی امداد کے لیے متحد ہو جانے والا عالمِ اسلام افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے بھی اسی جذبہ اور اتحاد کا مظاہرہ کر سکے گا؟

   
2016ء سے
Flag Counter