سرحد سکولوں میں قاریوں کی جگہ موسیقاروں کی اسامیاں

   
مئی ۲۰۰۲ء

روزنامہ اسلام کراچی نے ۱۶ اپریل ۲۰۰۲ء کی اشاعت میں این این آئی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پشاور کی ضلع کونسل کی ایک خاتون رکن نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سکولوں میں قاری حضرات اور اسلامیات کے اساتذہ کی اسامیاں ختم کرنے اور ان کی جگہ میوزیشن اور بیوٹیشن کی اسامیاں پیدا کرنے کے مبینہ فیصلے کی وضاحت کی جائے۔ خبر کے مطابق پشاور ضلع کونسل میں خاتون رکن کی طرف سے پیش کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم کے حوالے سے یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ سکولوں میں قرآن کریم پڑھانے والے قاری صاحبان اور دینیات کی تعلیم دینے والے اساتذہ کی اسامیاں ختم کر کے ان کی جگہ میوزک اور زیبائش و آرائش کا فن سکھانے والوں کا تقرر کیا جا رہا ہے۔ ضلع کونسل کی خاتون رکن نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے اس کی دوٹوک وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور قرارداد میں کہا ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو میڈونا نہیں بنانا چاہتے، اس لیے اگر خدانخواستہ اس نوعیت کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے تو اسے فی الفور واپس لیا جائے۔

صوبہ سرحد کے اسکولوں میں قرآن کریم پڑھانے کے لیے قاری حضرات کے تقرر کا فیصلہ اب سے کوئی تیس برس قبل حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز نے صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کیا تھا، جبکہ دینیات کی تعلیم کے لیے درسِ نظامی کے فضلاء کا تقرر بھی اسی دور سے چلا آ رہا ہے، جو مغربیت کے پرستار حضرات اور سیکولر حلقوں کو دو وجہ سے مسلسل کھٹک رہا ہے:

  • ایک اس وجہ سے کہ سکولوں میں بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم اور دین کی بنیادی ضروریات کی تعلیم کا اہتمام موجود ہے، جس سے اسلام اور اسلامی عقائد و احکام کے ساتھ ان کی وابستگی پختہ ہوتی ہے، اور مغرب پرست حلقوں کے نزدیک یہ بنیاد پرستی کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔
  • اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح دینی مدارس کے فضلاء کی ایک بڑی تعداد کو ریاستی نظم کے تحت روزگار میسر آ جاتا ہے جس سے مغربی حلقوں کے نزدیک دینی مدارس کے نظام کو استحکام فراہم ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے مغرب پرست حلقے ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہیں کہ سکولوں میں قرآن کریم کی تدریس اور دینی تعلیم کے نصاب اور اہتمام کو کم سے کم کیا جائے تاکہ دینی مدارس کے فضلاء کے اثرات کو محدود کیا جا سکے۔ کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغربی ثقافت کے فروغ اور کلچر کی ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی طبقہ ہے۔

ہمارے نزدیک ملک بھر میں عمومی طور پر نصابِ تعلیم کی ہمہ گیر تبدیلی اور نصابی کتب کی ملٹی نیشنل اداروں کے ذریعے طباعت و تقسیم کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصاب و نظام کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کی کوششوں کا پس منظر بھی یہی ہے کہ بین الاقوامیت اور عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگی کے خوبصورت عنوان کے ساتھ ریاستی تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا جو میٹر تھوڑا بہت موجود ہے اسے بھی ختم کر دیا جائے۔ اور مذہب کو پرائیویٹ معاملہ قرار دے کر عوام سے کہہ دیا جائے کہ وہ اگر اپنے بچوں کو قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم دینا چاہتے ہیں تو اس کا انتظام پرائیویٹ سطح پر اپنے طور پر کریں، حکومت اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، مگر ریاستی نظامِ تعلیم کو چونکہ عالمی برادری کے نظام اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی سطح کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے اس لیے اس میں دینیات اور قرآن کریم سے متعلقہ مواد ابتدا میں کم کرنا اور پھر آہستہ آہستہ بالکل ختم کر دینا ہماری بین الاقوامی مجبوریوں کا حصہ ہے۔

صوبہ سرحد کے محکمہ تعلیم کا مبینہ منصوبہ بھی اسی مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے جسے بروقت بے نقاب کرنے پر ضلع کونسل پشاور کی مذکورہ با غیرت خاتون مبارکباد کی مستحق ہیں۔ اور اس سلسلہ میں حکومتی حلقوں سے کچھ گزارش کرنے کو قطعی طور پر بے سود سمجھتے ہوئے ہم ملک کے دینی حلقوں اور اہلِ دانش سے یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور نئی نسل کے ایک بڑے حصے کو بنیادی دینی تعلیم سے محروم کر دینے کے اس خوفناک منصوبہ کی راہ روکنے کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی مرتب کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter