۱۰ اکتوبر کی آمد آمد ہے اور ملک بھر میں عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں۔ اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے الیکشن کے التوا کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، لیکن صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے ذمہ دار حضرات بار بار اور دوٹوک اعلان کر رہے ہیں کہ انتخابات ضرور ہوں گے اور مقررہ وقت پر ہی ہوں گے، اس لیے اس سلسلہ میں کسی تذبذب کا بظاہر اب کوئی جواز نظر نہیں آ رہا۔
انتخابات کے حوالے سے یہ پہلا موقع ہے کہ دینی جماعتوں نے مسلکی اور گروہی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دینی تشخص کی بنیاد پر اپنا الگ سیاسی پلیٹ فارم ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے نام سے قائم کر لیا ہے، اور متحدہ مجلس عمل کے سینکڑوں نمائندے ملک کے مختلف حصوں میں عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ملک کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ دینی جماعتیں متحد ہو جائیں اور مشترکہ پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیں۔
ہمارے خیال میں متحدہ مجلس عمل نے یہ مطالبہ پورا کر کے اتمامِ حجت کر دیا ہے، اس لیے اب عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحدہ دینی قیادت کا ساتھ دیں اور اس کے زیادہ سے زیادہ نمائندوں کو اسمبلی میں پہنچانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ پاکستان کے خلاف دن بدن بڑھتے ہوئے بین الاقوامی سیاسی، معاشی اور تہذیبی دباؤ کا مقابلہ صحیح طور پر دینی قیادت ہی کر سکتی ہے۔ لہٰذا ملک بھر کے غیور دیندار عوام اور دینی کارکنوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ بھرپور توجہ کے ساتھ ۱۰ اکتوبر کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو کامیاب بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہو جائیں۔
اس کے علاوہ ہم نفاذِ اسلام، طالبان کی حمایت، عقیدۂ ختمِ نبوتؐ کے تحفظ، اور تحفظِ ناموسِ صحابہؓ کے حوالے سے نمایاں خدمات کے پس منظر میں جھنگ سے مولانا اعظم طارق، چنیوٹ سے مولانا منظور احمد چنیوٹی، کوہاٹ سے حاجی جاوید ابراہیم پراچہ، اور راولپنڈی سے راجہ ظفر الحق کے لیے بطور خاص ان کے حلقوں کے علماء کرام اور دینی کارکنوں سے گزارش کریں گے کہ یہ حضرات کسی بھی فورم سے الیکشن لڑ رہے ہوں مگر انہوں نے مذکورہ بالا دینی امور میں ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے اور کلمۂ حق بلند کیا ہے، اس لیے ان راہنماؤں کا اسمبلی میں پہنچنا بھی ضروری ہے، لہٰذا ان کی انتخابی مہم میں بھرپور تعاون کیا جائے اور انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا جائے۔