سعودی عرب میں جمہوریت: جارج ڈبلیو بش کا نیا پینترا

   
۱۵ نومبر ۲۰۰۳ء

صدر جارج ڈبلیو بش کو سعودی عرب اور عالمِ اسلام کے حوالے سے جمہوریت یاد آئی ہے اور انہوں نے اسلام کو جمہوریت کا حامی مذہب قرار دیتے ہوئے سعودی عرب میں جمہوریت کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے، جس پر عالمی سطح پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر بش کچھ دنوں سے اسلام کے حوالے سے مسلسل کچھ نہ کچھ کہہ رہے ہیں۔ چند روز قبل کہا کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر عورتوں کی آزادی اور حقوق کے حوالے سے اسلام کی صفائی دینے کی کوشش کی۔ اور اب ایک بیان میں فرمایا ہے کہ اسلام جمہوریت کا مخالف نہیں ہے۔

گزشتہ ہفتے، جبکہ میں امریکہ میں تھا، وہاں کے ایک مسلمان دوست سے اس بات کا ذکر کیا تو ان کا تبصرہ تھا کہ جوں جوں الیکشن قریب آ رہے ہیں، اسلام کے بارے میں صدر بش کے بیانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ صدر بش کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ آئندہ الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹوں کا حصول ان کے لیے بہت مشکل معاملہ ہو گا۔

جارج ڈبلیو بش نے گزشتہ صدارتی الیکشن مسلمانوں کے ووٹوں کی وجہ سے ہی جیتا تھا، اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے ووٹوں کے باوجود ان کی کامیابی اس قدر واضح نہیں تھی کہ اسے قابلِ فخر کامیابی قرار دیا جا سکے۔ لیکن اس کے بعد ان کے دورِ اقتدار میں عالمی سطح پر اور خود امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو پریشان کر دیا ہے۔ اور جن مسلمانوں نے صدر بش کو گزشتہ صدارتی الیکشن میں ووٹ دے کر جتوایا تھا، وہ اب اس غلطی کی تلافی کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس لیے صدر بش کے بیانات میں اسلام کا تذکرہ زیادہ ہونے لگا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کی توجہ ایک بار پھر حاصل کر سکیں۔ مگر لگتا ہے کہ انہیں آئندہ صدارتی انتخاب میں مسلمانوں کی توجہ تو شاید پہلے سے زیادہ حاصل ہو جائے، مگر یہ توجہ مثبت نہیں ہو گی، بلکہ اس بار مسلمان زیادہ توجہ اس بات پر دیں گے کہ صدر بش کو اس الیکشن میں کامیابی سے دور رکھنے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟

میں نے لگ بھگ دو ماہ کا عرصہ امریکہ میں گزارا ہے اور ۶ نومبر کو واپس پاکستان پہنچا ہوں۔ اس دوران مجھے نیویارک، واشنگٹن، بوسٹن، بفلو، بالٹیمور، برمنگھم اور کئی دیگر شہروں میں مسلمانوں سے ملنے اور دینی اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا۔ میری سرگرمیاں زیادہ تر دینی تعلیم کے حوالے سے تھیں۔ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے فروغ، مسلمان بچوں کو دینی ماحول فراہم کرنے، اور آئندہ نسل کے عقیدہ و ایمان اور اخلاق و کردار اسلام کے مطابق استوار کرنے کے مسائل عام طور پر زیر بحث رہے۔ البتہ معلومات اور بریفنگ کی حد تک سیاسی مسائل بھی بعض مقامات پر گفتگو کا موضوع بنتے رہے، اور کم و بیش ہر جگہ میں نے محسوس کیا کہ گزشتہ صدارتی الیکشن میں جارج ڈبلیو بش کی حمایت کرنے پر مسلمان اپنے اندر شرمندگی محسوس کر رہے ہیں، اور آئندہ الیکشن میں اس کی تلافی کے لیے اندر ہی اندر منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔

مگر اس سے قطع نظر صدر بش نے سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے حوالے سے جمہوریت پر جو بات کی ہے وہ مغربی میڈیا میں بطور خاص زیر بحث ہے، اور متعدد تجزیہ نگار اس پہلو پر اظہار خیال کر رہے ہیں کہ سعودی عرب میں اگر اب تک جمہوریت نہیں ہے تو اس کا باعث بھی امریکہ ہی تھا۔ اور نہ صرف سعودی عرب بلکہ خلیج کے دیگر بہت سے ممالک میں بھی عوام سیاسی اور شہری حقوق سے صرف اس لیے محروم چلے آ رہے ہیں کہ اس خطہ میں امریکہ اور اسرائیل کا مفاد اسی میں ہے کہ عوامی حکومتیں وجود میں نہ آئیں، اور حکومتی پالیسیوں کی بنیاد عوامی رجحانات پر نہ رکھی جائے۔ عالم عرب کی رائے عامہ کے بارے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ان ممالک کے عوام کو جب بھی آزادانہ طور پر اپنی حکومتیں اور پالیسیاں تشکیل دینے کا موقع مل گیا، شخصی حکومتوں کا موجودہ سیٹ اپ برقرار نہیں رہے گا۔ اور اس کے ساتھ ہی امریکہ اور اسرائیل کے لیے بھی اپنے مفادات کا دامن سمیٹنے کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہے گا۔

سعودی عرب کی نئی مملکت کا قیام خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد عمل میں لایا گیا تھا۔ اور اس خطہ کے اس وقت کے سب سے بڑے سرپرست اور مداخلت کار برطانیہ نے باقاعدہ معاہدہ کے تحت اس نئی مملکت کی حدود میں آلِ سعود کا حقِ اقتدار تسلیم کر کے یہ ضمانت دی تھی کہ آئندہ اس ملکی باگ ڈور ’’آلِ سعود‘‘ کے ہاتھ میں رہے گی۔ اس وقت نہ برطانیہ کو جمہوریت یاد تھی اور نہ ہی امریکہ نے اسے جمہوریت کا یہ سبق پڑھانے کی ضرورت محسوس کی تھی۔ پھر جب خود امریکہ نے اس خطے کے معاملات کو سنبھالا اور برطانوی استعمار کے تازہ دم جانشین کے طور پر عربوں کی سرپرستی قبول کی تو اس وقت بھی اسے جمہوریت یاد نہ آئی۔ اور اس نے اس خطے کے عوام کو سیاسی، جمہوری اور شہری حقوق دلوانے کے بجائے ان برطانوی معاہدوں کی پاسداری کو ضروری خیال کیا جو خلیجی ممالک میں چند خاندانوں کے اقتدار کو گارنٹی فراہم کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ مگر اب اچانک سعودی عرب کے حوالے سے امریکی صدر کو جمہوریت یاد آ گئی، اور نہ صرف یہ کہ انہوں نے جمہوریت کا سبق سعودی حکمرانوں کو پڑھانا شروع کر دیا ہے بلکہ سعودی عرب کے مختلف شہروں میں عوامی مظاہروں اور تشدد کی کارروائیوں کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے، ہم مسلم ممالک میں عوام کی نمائندہ حکومتوں کے حق میں ہیں اور پورے شرح صدر کے ساتھ سمجھتے رہیں گے کہ عوام کی نمائندگی اور اعتماد رکھنے والی حکومتیں ہی صحیح معنوں میں اسلامی حکومتیں کہلانے کی حقدار ہیں۔ جبکہ شخصی اور خاندانی حکومتوں کا اسلام میں کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن عالمِ اسلام میں مغربی قوتوں نے جمہوریت کے ہی نام پر چوہے بلی کا جو کھیل شروع کر رکھا ہے ہمیں اس سے بھی پوری طرح خبردار رہنا ہو گا۔

عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی مرحوم پر جب ملک میں جمہوری اصلاحات کے لیے دباؤ بڑھا اور انہوں نے اس کے لیے آمادگی کا اظہار کیا تو اس وقت انہوں نے ایک جملہ کہا تھا جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم ثقافتی اور سیاسی محاذ پر ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جس کا ہماری اپنی ضروریات تقاضا کرتی ہیں، لیکن اس حوالے سے مغرب ہم سے جو چاہتا ہے وہ ہم نہیں کریں گے۔ سلطان عبد الحمید ثانی مرحوم کو اسی کی سزا ملی تھی اور خلافت سے محروم ہو کر انہوں نے باقی زندگی نظربندی کے عالم میں بسر کر دی تھی۔ کم و بیش ایک صدی گزر جانے کے بعد آج بھی ہمارے نزدیک صورتحال جوں کی توں ہے:

  1. ایک طرف وہ تقاضے ہیں جو ہماری ملی ضروریات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں عوام کے سیاسی اور شہری حقوق ہیں ،انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، عورتوں اور بچوں کے حقوق کا معاملہ ہے، اور دیگر اہم امور و معاملات ہیں، جن کے بارے میں عالمِ اسلام میں وسیع تر اصلاحات کی ضرورت ہے اور انقلابی تحریکات درکار ہیں۔ ہمارے موجودہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی ڈھانچوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ نہ اسلام سے مطابقت رکھتے ہیں اور نہ ہی آج کے عالمی نظام سے ہم آہنگ ہیں۔ اسی وجہ سے ہم کسی حوالے سے بھی ترقی کی طرف کوئی قدم اٹھا نہیں پا رہے۔
  2. جبکہ دوسری طرف ہماری ان داخلی مشکلات کے حوالے سے مغرب کا ایجنڈا ہے اور اس کی خواہشات ہیں، جن کی تکمیل وہ ہماری مشکلات اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جلد سے جلد کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں اپنی ملی ضروریات اور مغرب کی خواہشات کے درمیان بہرحال فرق کرنا ہو گا اور ان کے درمیان سے کوئی راستہ نکالنا ہو گا۔ تاکہ عالمِ اسلام کی ملی ضروریات کی تکمیل کا راستہ بھی بند نہ ہو، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ملتِ اسلامیہ کو مغرب کے تہذیبی اور سیاسی سانچے میں ڈھالنے کی خواہش کو آگے بڑھنے سے بھی روکا جا سکے۔

جمہوریت کے بارے میں مغرب کا دوہرا معیار ہم اپنی آنکھوں سے الجزائر میں دیکھ چکے ہیں۔ ترکی میں جمہوری حکومتوں کے ساتھ گلی ڈنڈے کا کھیل ہمارے سامنے ہے۔ اور پاکستان میں جمہوریت کے معیار اور ساخت کے ضمن میں امریکی طرز عمل ہم عملاً بھگت رہے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ صدر بش نے سعودی عرب میں جمہوریت کی ضرورت، اور ایران میں جمہوری مطالبات کو تسلیم کیے جانے کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس کا مقصد صرف جمہوریت کی حوصلہ افزائی ہے، قطعی طور پر غلط بات ہو گی۔ ہم یہ بات سمجھتے ہیں اور ’’خاکم بدہن‘‘ کی تمہید کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اس کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں کہ امریکہ نے دراصل سعودی عرب کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے لیے راستہ یہ تجویز کیا ہے کہ جمہوریت کے نام پر وہاں افراتفری پیدا کی جائے اور حالات کو اس حد تک بگاڑ دیا جائے کہ آلِ سعود کے لیے سعودی عرب کو سنبھالنا مشکل ہو جائے۔

اس حقیقت کے اظہار و اعتراف میں ہمیں کوئی حجاب نہیں کہ آلِ سعود اس وقت سعودی عرب کی وحدت کی علامت ہیں، اور ان کے علاوہ اور کوئی متبادل قوت دکھائی نہیں دے رہی جو سعودی عرب کے مختلف حصوں کو یکجا رکھ سکے۔ اس لیے آلِ سعود کے منظر سے ہٹ جانے کی صورت میں خدانخواستہ سعودی عرب کے مختلف حصوں میں بٹ جانے کی اس سازش کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہے جس کا تذکرہ ایک عرصہ سے بین الاقوامی پریس میں ہو رہا ہے کہ

  • تیل کی چشموں پر براہ راست قبضے کا خواب پورا ہو،
  • گریٹر اسرائیل کے نقشے کی تکمیل کے لیے آسانیاں فراہم ہوں،
  • اور حجاز مقدس کو ویٹی کن طرز کی ایک خالص مذہبی حکومت فراہم کر کے مسلمانوں کو بھی مطمئن کر دیا جائے۔

خدا کرے ایسا نہ ہو، لیکن اس کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب میں عوام کے سیاسی اور شہری حقوق سے ہمیں بھی دلچسپی ہے اور ہم بھی وہاں حکومت میں عوام کی نمائندگی کے خواہاں ہیں، بشرطیکہ وہ

  • سعودی عرب کی بقا اور استحکام کے لیے ہو،
  • حرمین شریفین کے تقدس و احترام کے لیے ہو،
  • اور عالمِ اسلام میں سعودی عرب کے اچھے کردار کے لیے ہو۔

اگر جمہوریت نے مغرب کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھانا ہے اور مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے تو پھر پنجابی کا ایک محاورہ ہمارے جذبات و احساس کی زیادہ بہتر طور پر ترجمانی کرتا ہے کہ

’’بھٹ پیا اوہ سونا جیہڑا کناں نوں وڈے‘‘ (وہ سونا بھٹی میں پڑے، جو کانوں کو کھائے)۔

   
2016ء سے
Flag Counter